وحدت نیوز(ہری پور) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری تعلیم و مہدی برحق کانفرنس کے کنوینئیر نثار فیضی نے کہا کہ امام مہدی کے ظہور کے مسئلہ پر دنیا دو فطری بلاک میں تقسیم ہوچکی ہے ایک طبقہ ماننے والا اور ایک رستہ روکنے والا ہے دنیا کی موجودہ بدلتی ہوئی صورت حال میں ماننے والوں کا ساتھ دینے کے لیے بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں چھ اگست کو اسلام آبادپریڈ گرائونڈ میں قائد شہید علامہ عارف حسین حسینی کی 29ویں برسی کے سلسلہ میں منعقدہ مہدی برحق کانفرنس میں ہزارہ ڈویژن سے بھی شیعان علی بڑی تعداد میں شرکت کرکے امام مہدی کے ماننے والوں کی قوت میں اضافہ کریں اوراس حوالے سے اپنا مذہبی فریضہ ادا کریں ان خیالات کا اظہا رانھوں نے گذشتہ روز ہری پور کے دورہ کے موقع پر جعفری ہائوس ہری پورمیں ضلع کے مختلف علاقوں سے آئے شیعہ عمائدین سے خطاب کرتے ہوئے کیا اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل علامہ اقبال بہشتی ،صوبائی ڈپٹی جنرل سیکرٹری علامہ وحید عباس کاظمی ،اتحاد بین المسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل نیئر عباس جعفری اور دیگر قائدین بھی موجود تھے۔
نثار فیضی نے کہا کہ امام مہدی کے ظہور کے مسئلہ پر دنیا دو فطری واضع بلاک میں تقسیم ہوچکی ہے ایک بلاک ماننے والا اور ایک رستہ روکنے والا ہے رستہ روکنے والوں نے طاقت اور سرمائے کے زور پر ایٹمی قوت پاکستان کو بھی رستہ روکنے والے اکتالیس ممالک کے اتحاد میں شامل کروادیا ہے چونکہ ہمارے اسلاف نے بے پناہ قربانیوں کے عوض ملک حاصل کیا اب اس ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت بھی ہماری ذمہ داری ہے لہذاشیعان حید ر کرار فرنٹ لائن پر رہ کر یہ ذمہ داری بھی پوری کریں گے انھوں نے عمائدین پر زور دیا کہ وہ چھ اگست کی مہدی برحق کانفرنس میں اپنی بھرپور شرکت اور قوت کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیاری کریں مجلس وحدت مسلمین ایک مذہبی سیاسی جماعت ہے ،ملک کے بدلتے سیاسی حالات میں اس کانفرنس میں آئندہ کے سیاسی لائحہ عمل کے تعین میں بھی مدد ملے گی آج کے ان کے دورے کا مقصد کارکنوں تک یہ پیغام پہنچانا ہے کہ چھ اگست کی کانفرنس میں ہزارہ ڈویژن سے مرد و خواتین بہت بڑی تعداد میں اپنی شرکت یقینی بنائیں کانفرنس میں خواتین کے لیے خصوصی انتظاما ت کیے گئے ہیں ۔
وحدت نیوز(مظفر گڑھ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی جنوبی پنجاب کے دورہ جات کے دوران مرکزی امام بارگاہ کوٹ ادو میں عمائدین سے ملاقات کی اور خطاب کیا۔ انہوں نے کہا پاکستان کے استحکام کے لیے انصاف کا عمل بہت ضروری ہے۔ موجودہ وزیر اعظم نواز شریف اب کوئی اخلاقی جواز نہیں رکھتے کے وہ اب بھی وزارت عظمی کے عہدہ پر فائز رہیں۔ اس لیے انہیں فورا استعفی دینا چاہیے۔ جنوبی پنجاب کی عوام کا معاشی استحصال کیا گیا۔ اس خطہ میں عوام کو صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس کے ساتھ کل مستونگ میں ہونے والے سانحہ پرحکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔
بلوچستان حکومت امن قائم کرنے میں بری طرح ناکام ہو چکی ہیں،دہشتگردوں کے نرسری کالعدم شدت پسند گروہ کو بلوچستان میں مکمل آزادی دینا دہشتگردی کیخلاف جنگ کو ناکام بنانے کی سازش ہے، ان دہشتگردوں گروہوں نے نام بدل کر پورے پاکستان کو یرغمال بنایا ہوا ہے اور اب یہ سارے دہشتگرد گروہ داعش کے کے تلے جھنڈے منظم ہوکر پاکستان کو اپنی آماجگاہ بنانے میں کوشاں ہےاور ہر سانحے کے بعد باقاعدہ طورپر داعش واقعے کی ذمہ داری نہ صرف قبول کرتی ہے بلکہ آئندہ بھی اسی طرح کے حملوں کی دھمکیاں دیتی ہے ،وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اگر عوام کی جان و مال کی حفاظت نہیں کر سکتے یا پھر وزیر داخلہ کے پاس اختیارات نہیں ہے تو تو اپنے عہدہ سے مستعفی ہوجائیں ۔
وحدت نیوز(مظفرآباد) آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے صدر و سابق وزیاعظم آزاد کشمیر سردار عتیق احمد خان کی وفد کے ہمراہ سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین آزادکشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی کی عیادت۔ وفد میں سابق وزیر شمع علی ملک ،سابق وزیر حکومت دیوان علی خان چغتائی، سابق وزیر سید مرتضی گیلانی،میر عتیق الرحمن ،راجہ ثاقب مجید، خواجہ شفیق احمد، انجینئر یاسر علی کاظمی، سردار سجاد عباسی، عاصم علی نقوی، تصور عباس موسوی، سمیعہ ساجد کے علاوہ عہدیداران و کارکنان کی کثیر تعداد شامل تھی۔ سردار عتیق احمد خان نے علامہ تصور جوادی کی خیریت دریافت کی اور جلد صحتیابی کی دعا کی۔اس موقع پر انہوں نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ علامہ تصور جوادی اور ان کی اہلیہ پر حملہ کرنے والوں کی عدم گرفتاری پر سخت تشویش ہے، حکومت اس مسئلے کو چھوٹا مسئلہ نہ سمجھے، مجرمان کو جلد از جلد گرفتار کر کے کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ علاوہ ازیں سابق وزیر شمع علی ملک اور سمیعہ ساجد نے علامہ تصور جوادی کی اہلیہ سے بھی ملاقات کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) مسافرین گرامی! طیارہ کچھ ہی دیر بعد لینڈ کرنے والا ہے۔یہ اعلان سنتے ہی ہر مسافر خوشی سے پھول جاتا ہے، ابھی ہم اپنے ملک کے ائیر پورٹ کے گیٹ سے نکل ہی رہے ہوتے ہیں کہ ٹھگوں کا ایک ٹولہ ہماری طرف لپکتا ہے، کوئی سامان کو چمٹتا ہے، کوئی ہاتھوں کو چومتا ہے، کوئی دامن کو کھینچتا ہے اور کوئی بیگ کو پکڑتا ہے۔
آپ لاکھ شور کریں کہ بھائی میری جان چھوڑیں لیکن وہ بغیر کچھ لئے ٹلنے والے نہیں ہوتے، بہر حال ہم انہیں غریب اور فقیر سمجھ کر کچھ نہ کچھ دے کر جان چھڑوا لیتے ہیں۔
جب کچھ آگے آئیں تو ٹیکسیوں اور رکشوں والوں کے غول مسافروں پر ٹوٹ پڑتے ہیں،ہر ایک کا اپنا کرایہ اور اپنا ریٹ ہوتا ہے، ہمیں آنکھیں بند کر کے یہاں پر بھی یہی سوچنا پڑتا ہے کہ اس غربت اور مہنگائی میں یہ بے چارے بھی کیا کریں!؟
گھر آجائیں تو ہر روز گوالا بلاناغہ کیچڑ ملا کر دودھ دے کر چلا جاتا ہے۔ ہم یہاں بھی آنکھیں چرا لیتے ہیں کہ بے چارہ غریب آدمی ہے کیا کرے۔
گھر سے باہر نکلیں اور پبلک ٹراسپورٹ سے سفر کر کے دیکھیں، مسافروں کو فحش فلمیں اور گانے سنائے جارہے ہوتے ہیں ، ہم یہاں بھی یہ سوچ کر چپ کر لیتے ہیں کہ غریب ڈرائیوروں کی یہی تفریح ہے اور بے چارے اس کے علاوہ کیا کریں!
کبھی تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ مسافروں کو نصف راستے میں یہ کہہ کر اتار دیا جاتا ہے کہ گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا ہے یا فلاں پرزہ ٹوٹ گیا ہے۔ ہم اس وقت بھی چپ سادھ کر بیٹھ جاتے ہیں کہ آخر اس میں ڈرائیور بے چارے کا کیا قصور ہے اور ڈرائیور باقی کرایہ واپس کئے بغیر اگلی منزل کو روانہ ہو جاتا ہے۔
ہم اپنی سڑکوں پر ہر روز خراب اور خستہ حال مسافر گاڑیوں کو چلتے ہوئے دیکھتے ہیں لیکن کبھی لب نہیں ہلاتے چونکہ ہمارے نزدیک غریب لوگوں کو انہی خستہ حال گاڑیوں میں ہی سفر کرنا چاہیے اور جب ایکسیڈنٹ ہوجائے تو حکومت سے معاوضے کا مطالبہ کرکے ہلاک ہونے والوں کے ورثا کو کچھ پیسے دینے سے مسئلہ رفع دفع ہوہی جاتا ہے۔
ہم خود بھی ایسی بڑی بڑی مسافر بسوں کو دیکھتے ہیں کہ جن میں سوار ہونے کے لئے صرف ایک گیٹ ہوتا ہے۔اور اس ایک گیٹ سے بھی سوار ہونا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ اگر خدا نخواستہ گاڑی میں آگ لگ جائے تو گیٹ سے بھاگ کر نکلنے کی کوئی صورت نہیں ہوتی۔ لیکن ہم نے کبھی اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہی نہیں۔
ایسے لگتا ہے کہ اس ملک میں عوامی مسائل کے حل کے لئے کوئی ادارہ ہے ہی نہیں اور یا پھر عوام میں کوئی ایسا ایک آدمی بھی نہیں جو جہاں مسئلے کو دیکھے وہیں کسی متعلقہ ادارے کو رپورٹ کرے۔
ہمارے ہاں پڑھے لکھے لوگ بھی ان پڑھوں کی طرح مسائل کو دیکھتے ہیں اور انہی کی طرح مسائل سے گزر جاتے ہیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ صرف اس دن طیش میں آتے ہیں جس دن کہیں کوئی ٹارگٹ کلنگ ہوجائے اور یا پھر کوئی خود کش دھماکہ ہوجائے۔
ہم ابھی تک اس بات کو نہیں سمجھے کہ یہ جتنے بھی نوسرباز ہیں یہ سب جسد واحد کی طرح ہیں۔ ان میں سے ہر ایک مذموم اور ہر ایک قابل گرفت ہے۔ ائیر پورٹ کے گیٹ پر ملنے والے ٹھگوں اور نوسر باز ٹیکسی ڈرائیوروں اور لوگوں کو ملاوٹ شدہ دودھ اور جعلی دوائیاں فروخت کرنے والوں اور ٹارگٹ کلرز میں انسانیت دشمنی کے اعتبار سے کوئی فرق نہیں۔
یوں نہی ہو سکتا کہ ہم بعض جگہوں پر تو جرائم سے نظریں چرائیں اور بعض جگہوں پر مجرموں کو سزا دینے کا مطالبہ کریں۔ جب تک ہم خود عوامی سطح پر نوسر بازوں، ٹھگوں اور حرام خوروں کے خلاف ایکشن نہیں لیتے تب تک کلبھوشن یادو جیسے بنئے ایسے بے ضمیر لوگوں کو خرید کر انسانی جانوں سے کھیلتے رہیں گے۔
آج دم تحریر مستونگ کے قریب دہشت گردوں نے کوئٹہ سے کراچی جانے والی گاڑی پر فائرنگ کر کے ہزارہ برادری کے چار افراد کو شہید کردیا گیاہے ۔ جبکہ حیدر آباد سے تعلق رکھنے والا ڈرائیور عبدالستار زخمی ہے۔
اب اگر بے ضمیر حملہ آور کو گرفتار کر بھی لیاجائے تو تب بھی یہ سلسلہ نہیں رک سکتا اس لئے کہ اس ملک میں ہم نے بے ضمیری ، بے حسی ، اور ظلم و شقاوت کے خلاف کبھی قلمی اور عملی احتجاج کیا ہی نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پڑھے لکھے لوگ ان پڑھ لوگوں کی طرح جینا چھوڑ دیں۔ عوام کے حقوق اور جان و مال کا دفاع کریں ، پبلک ٹرانسپورٹ سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر بے ضمیر ، وطن فروش اور نوسر باز کو روکیں اور اس کو قانون کے کٹہرے میں لائیں۔
جب تک پڑھے لکھے اور باشعور لوگ جہالت ، نادانی اور نوسربازی کے خلاف لڑنے کا فیصلہ نہیں کر لیتے تب تک اس ملک میں کوئی تبدیلی نہیں آسکتی۔ تب تک کلبھوشن جیسوں کو نت نئے نوکر اور ایجنٹ ملتے رہیں گے۔ تب تک اگر ایک احسان اللہ احسان ہتھیار ڈالےگا تو دس دیگر نوسر باز ،وطن فروشی کا کاروبار شروع کر دیں گے۔ تب تک اگر ہم ایک نوسرباز حکمران کو اقتدار سے ہٹائیں گے تو دوسرا اس سے بڑا نوسر باز نکلے گا۔ نوسر باز تبدیل کرنے سے نوسربازی اور کرپشن نہیں رک سکتی بلکہ ہمیں عوامی سطح پر اور عوامی طاقت کے ساتھ ، دہشت گردی، نوسربازی اور کرپشن کو روکنے کی ضرورت ہے۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(آرٹیکل) تقیہ {وقایہ}سے ہے اور اس کا لغوی معنی کسی چیز کوخطرے سے بچاناہے جیساکہ تقوی بھی اسی مادہ سے ہے ۔تقوی سے مراد محرمات الہی سے نفس کو بچانا ہے لہذا تقیہ سے مراد اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کی خاطر اپنے مذہب کے خلاف کسی عقیدےاور عمل کا اظہار کرنا ہے ۔شرعی اصطلاح میں تقیہ سے مراد انسان کا ممکنہ ضرر سے بچنے کی خاطر حق کےخلاف کسی کے قول یا فعل کی موافقت کرناہے۔دوسری عبارت میں تقیہ سےمراد اپنے قول و فعل سے ایسی چیزوں کا اظہار کرنا جو احکام دینی کے خلاف ہوں تاکہ اس کے ذریعے اپنی یا کسی دوسرے شخص کی جان ، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کر سکے ۔
تقیہ حقیقت میں ایک اصل عقلی ہےجو قاعدہ اہم و مہم پر استوار ہے ۔عقلاءکی سیرت بھی یہی ہے کہ جب ان کے جان ، مال اور عزت و آبرو خطرے میں پڑ جاتی تو وہ ان کی حفاظت کی خاطر اپنے عقائد کے خلاف اظہار کر کے اس خطرے کو برطرف کرتےتھے۔آج بھی انسانی معاشرےمیں یہ سیرت جاری ہے جیساکہ بعض موارد میں جان ،مال اور عزت و آبرو سے اہم کوئی فریضہ خطرے میں پڑ جائے تو اس چیز کو مقدم قرار دیتے ہوئے جان ، مال اور عزت و آبرو سے ہاتھ اٹھا لیتے ہیں۔اگرچہ مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے درمیان اہم و مہم کے مصادیق میں اختلاف نظر ممکن ہے لیکن یہ اختلافات عقلاء کا اصل تقیہ پر متفق ہونے کے ساتھ منافات نہیں رکھتا جیساکہ بعض مواردکے اہم ہونےمیں تمام عقلاء متفق ہیں مثلا معاشرے میں امن و امان قائم کرنا۔عقلاء معاشرے میں امن و امان کی فضا قائم کرنے کے لئے جان ومال تک قربان کرنے کے لئے تیار ہو جاتےہیں۔
قرآن کریم کی بعض آیتیں واضح طورپر تقیہ کو ایک شرعی اصل کے طور پر بیان کرتیں ہیں قرآن کریم میں ارشاد رب العزت ہے:{ لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَ مَن يَفْعَلْ ذَالِکَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّہِ فیِ شئٍَ إِلَّا أَن تَتَّقُواْ مِنْہُمْ تُقَئۃ}مومنین کو چاہیےکہ وہ اہل ایمان کوچھوڑ کر کافروں کو سرپرست نہ بنائیں اور جو کوئی ایسا کرے ، اس کا خدا سے کوئی تعلق نہیں، ہاں اگرتم ان {کے ظلم}سےبچنےکے لئے کوئی طرز عمل اختیار کرو{تو اس میں مضائقہ نہیں}۔اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ مومنین کو چاہیے کہ وہ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا ولی نہ بنا ئیں اور اگر کوئی ایسا کرے توخدا کی بارگاہ میں اس کے لئےکوئی مقام نہیں ہے یعنی یہ کام خدا کی رضا اور خوشنودی کے خلاف ہے مگر یہ کہ کافروں سے خوف محسوس کرے اور تقیہ کے شرائط فراہم ہو ں تو اس وقت کفار سے دوستی اوران کی مدد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔دوسرے مقام پر فرماتا ہے:{ مَن کَفَرَ بِاللَّہِ مِن بَعْدِ إِيمَانِہِ إِلَّا مَنْ أُکْرِہَ وَ قَلْبُہُ مُطْمَئنِ بِالْايمَانِ وَ لَکِن مَّن شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَيْہِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللَّہِ وَ لَہُمْ عَذَابٌ عَظِيم}جو شخص اپنے ایمان کےبعد اللہ کا انکار کرے{اس کےلئے سخت عذاب ہے}بجز اس شخص کے جسےمجبورکیا گیا ہواور اس کا دل ایمان سےمطمئن ہو {توکوئی حرج نہیں }لیکن جنہوں نے دل کھول کر کفر اختیار کیا ہو تو ایسے لوگوں پراللہ کا غضب ہے اور ان کے لئے بڑاعذاب ہے ۔اس آیت کی روشنی میں جو شخص ایمان لانے کےبعد اپنے ارادے سے کفر اختیار کرے تووہ عذاب الہی کا مستحق ہے مگر وہ افراد جو کفر اختیار کرنےپرمجبور ہو اور اپنی جان کی حفاظت کی خاطر کفر اختیارکرے حالانکہ ان کے دل ایمان سےسرشار ہو تو ایسے افراد عذاب الہی کا مستحق نہیں ہیں اور یہ قانون تقیہ ہے ۔ مذکورہ آیت جناب عمار یاسر کے بارےمیں نازل ہونے پر تمام محدثین و مفسرین کا اتفاق ہے ۔جناب عمار، ان کے والدین {یاسر اورسمیہ}اور بعض اصحاب کفار کے ہاتھوں سخت اذیت و آزار سے دوچار ہوئے جنہیں ان لوگوں نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے برائت کرنے کا حکم دیا تھا ۔جناب عمار کے والدین نے ایسا کرنے سے انکار کیا جس کے نتیجے میں انہیں شہید کر دیا گیا مگر جناب عمار نے تقیہ کرتے ہوئے کفر کا اقرار کیا جس کی وجہ سےوہ بچ گئے لیکن اپنے اس عمل پر پشیمان ہو کر روتے ہوئےپیغمبر اسلامصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پہنچے اور آپؐ کو اس واقعہ سے آگا ہ کیا۔پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو تسلی دی اور فرمایا:پھرکبھی ایسا واقعہ پیش آئے تو جوبھی تم سے کہلائیں کہہ دینا اسی وقت آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ایک اور مقام پر اللہ تعالی فرماتا ہے:{وَ قَالَ رَجُلٌ مُّؤْمِنٌ مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَکْتُمُ إِيمَانَہُ أَ تَقْتُلُونَ رَجُلاً أَن يَقُولَ رَبی الله ۔۔۔} اور آل فرعون میں سے ایک مومن جواپنا ایمان چھپا ئے ہوئے تھا کہنےلگا: کیا تم ایسے شخص کو قتل کرنا چاہتے ہوجو کہتا ہے میرا رب اللہ ہے ۔آل فرعون کےمرد مومن نے حضرت موسی علیہ السلام پر ایمان لایا تھا اور اس نے آپؑ سے خفیہ رابطہ رکھا ہوا تھا ۔علاوہ ازیں اس نے آپ ؑکو فرعون کےپیروکاروں کے منصوبےسےآگاہ کیا جو آپ ؑکو قتل کرنا چاہتے تھے ۔{ قَالَ يَامُوسیَ إِنَّ الْمَلاء یاْتَمِرُونَ بِکَ لِيَقْتُلُوکَ فَاخْرُجْ إِنی ّ لَکَ مِنَ النَّاصِحِين}اس نےکہا اے موسی!دربار والے تیرےقتل کے مشورے کر رہےہیں،پس {یہاں سے}نکل جا میں تیرے خیر خواہوں میں سےہوں۔ یہ شخص اپنےعقائد کوفرعونیوں سےچھپاتا تھا اور خود فرعونیوں کے عقائد کے مطابق عمل کرتا تھا اگرچہ یہ حق کے خلاف تھا لیکن اپنی اور حضرت موسی علیہ السلام کی جان بچانے کے لئے وہ تقیہ کرتا تھا۔قرآن کریم اس کےاس عمل کو بڑے احترام سے یاد کیاہے ۔
فخر الدین رازی اس آیت {لَّايَتَّخِذِالْمُؤْمِنُونَ الْکَافِرِينَ أَوْلِيَاءَمِن دُونِ الْمُؤْمِنِين۔۔} کی تفسیرمیں لکھتےہیں: آیت کا ظہورصرف کفار سے تقیہ کرنے پر دلالت کرتاہے لیکن امام شافعی کا نظریہ ہے کہ اگر مسلمانوں کے درمیان ایسے حالات رونما ہو جائیں جیسے مسلمان اور کفار کےدرمیان ہوا کرتا ہے تو اس صورت میں بھی جان کی حفاظت کےلئے تقیہ کرنا جائز ہے ۔امام شافعی کی نظر میں جان کی حفاظت کے لئے تقیہ کرنا مسلما ًجائز ہے جبکہ مال کے نقصان کی صورت میں بھی تقیہ کے جائز ہونے کو ترجیح دی گئی ہےکیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :{حرمۃ مال المسلم کحرمۃدمہ}مسلمانوں کا مال ان کے خون کے مانند محترم ہے۔نیز آپؐ نےفرمایا:{من قتل دون مالہ فہوشہید}اگرکوئی شخص اپنے مال کی حفاظت میں ماراجائے تو وہ شہید ہوگا۔یعقوبی اور دوسرے مورخین لکھتے ہیں کہ جب بسربن ابی ارطاۃ نے مدینہ پر حملہ کیا اور جابربن عبد اللہ کو اپنےپاس بلا یا تو جابر نے ام سلمہ سےکہا :اس شخص کی بیعت کرنا ضلالت ہے لیکن اگر بیعت نہ کروں تو یہ مجھےقتل کر دےگا ۔ام سلمہ نے کہا :اس کی بیعت کرو کیونکہ اصحاب کہف تقیہ کر کے اپنی قوم کے مخصوص مراسم میں شرکت کرتے تھےاور ان کی طرح مخصوص لباس پہنتے تھے ۔طبری اپنی کتاب تاریخ میں مامون عباسی کی حکومت کےزمانے میں پیش آنے والے واقعات مخصوصاً قرآن کےمخلوق اور حادث ہونے کے بارےمیں لکھتے ہیں:بہت سارے قضات اور محدثین نے مامون کے خوف سے بچنے کے لئے قرآن کے مخلوق ہونے کا اقرار کیا تھا لیکن جب بعض لوگوں نے تقیہ کرنے والوں پر اعتراض کیا اور ان کے اس عمل کی مذمت کی تو انہوں نے کفار کے مقابلے میں جناب عمار یاسر کی مثال پیش کی ۔یہ واقعہ اس بات پر واضح طورپردلالت کرتا ہے کہ تقیہ ایک عمومی قاعدہ ہے جو صرف کفار کے ساتھ مخصوص نہیں ہے ۔جب بھی تقیہ کے شرائط فراہم ہوں تو انسان اس پر عمل کر سکتا ہے خواہ مسلمانوں کے مقابلے میں ہو یا کفار کے مقابلے میں ۔
آئمہ اہل بیت علیہم السلام اس عقلی و شرعی قاعدے کےبارے میں تاکید کرتے ہوئے فرماتے ہیں:{لاایمان لمن لاتقیۃلہ}جو تقیہ نہیں کرتا اس کا کوئی ایمان نہیں ہے{ولا دین لمن لا تقیۃ لہ}جوتقیہ نہیں کرتااس کا کوئی دین نہیں ہے{التقیۃ من دینی ودین آبائی}تقیہ میرےاور میرے آباءواجداد کے دین میں شامل ہے۔امام جعفر صادق علیہ السلام سے بھی اسی قسم کی ایک حدیث نقل ہوئی ہے ۔ تقیہ کے بارے میں ائمہ اہل بیت علیہم السلام کی احادیث سےمعلوم ہوتاہے کہ ائمہ اہل بیت علیہم السلام دوقسم کے تقیہ پر عمل کرتے تھے اوراپنے پیروکاروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی نصیحت فرماتے تھے۔1۔تقیہ خوفی 2۔تقیہ مدارائی تقیہ خوفی کےبارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں ۔تقیہ خوفی کبھی انسان کی اپنی جان ،مال اور عزت و آبرو کی خاطر ،کبھی دوسرے مومنین کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی خاطر اور کبھی دین ومذہب کی حفاظت کی خاطر کیاجاتا ہے ۔ تقیہ مدارائی بھی تقیہ کی ایک قسم ہے اور یہ اس مقام پر ہےجہاں انسان کی جان ،مال اور عزت و آبرو کے لئے کوئی خطرہ نہیں ہے لیکن اس روش پر عمل کرنے سے انسان بہتر طریقے سے دینی ذمہ داریاں انجام دے سکتا ہے اورمسلمانوں کے درمیان اخوت کی فضا قائم کرسکتا ہے۔ جن احادیث میں تقیہ کوسپر اور ڈھال قرار دیا ہے جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: التقیۃ ترس المؤمن و التقیۃ حرز المؤمن}تقیہ مومن کے لئےڈھال ہے اور تقیہ مومن کی حفاظت کا سبب ہے ۔اس سے مراد تقیہ خوفی ہے اور جن احادیث میں آداب معاشرت اور اچھے اعمال کےبارے میں کہا گیا ہے وہ اکثرتقیہ مدارائی ہیں ۔یعنی ان احادیث کا مقصد مخالفین کو مذہب شیعہ کی طرف جذب کرنا ہے اگرچہ اس کے ذریعے شیعوں کی جان ،مال اور عزت و آبرو کی بھی حفاظت کی جاسکتی ہے ۔
جناب ہشام بن حکم امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپؑ نے فرمایا:جن کاموں کی وجہ سے ہماری سرزنش ہوتی ہو ان سے پرہیز کرو کیونکہ ناصالح فرزند کے کاموں کی وجہ سے اس کےباپ کی بھی سرزنش ہوتی ہے ۔جن افرادکے بارے میں تمہاراخیال ہو کہ وہ تم میں سے ہیں ان کے لئے باعث زینت بنو نہ باعث شرمساری وذلت۔ان کے{اہل سنت} نماز جماعت میں شریک ہو جاوٴ،ان کے بیماروں کی عیادت کرو،ان کے جنازوں میں شرکت کرو اور ہر نیک عمل کو ان سے پہلے انجام دو۔اس کے بعد آپ ؑنے فرمایا:{والله ماعبدالله بشئی احب الیہ من الخباء}خدا کی قسم خداوند متعال کی خباء سےزیادہ محبوب کسی چیز کےذریعےعبادت نہیں ہوئی ہے۔ہشام نے {خباء} کےبارےمیں سوال کیا تو آپؑ نے فرمایا:{التقیۃ}ائمہ اہل بیت علیہم السلا م کی متعدد احادیث میں آیت کریمہ{اورنیکی اوربدی برابر نہیں ہوسکتے، آپ{بدی کو} بہترین نیکی سے دفع کریں تو آپ دیکھ لیں گے کہ آپ کے ساتھ جس کی عدوات تھی وہ گویا نہایت قریبی دوست بن گیا ہے۔اور یہ {خصلت}صرف صبر کرنے والوں کو ملتی ہے اور یہ صفت صرف انہیں ملتی ہے جو برے نصیب والے ہیں }سے مرادتقیہ لیا ہے ۔واضح رہے کہ اس تقیہ سے مراد تقیہ مدارائی ہے۔اس بات پر واضح دلیل اس آیت سے پہلی والی آیت ہے جو توحید اور خدا پرستی کی طرف دعوت دیتی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :{ وَ مَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلی اللہ وَ عَمِلَ صَلِحًا وَ قَالَ إِنَّنی مِنَ الْمُسْلِمِين}ا
اور اس شخص کی بات سےزیادہ کس کی بات اچھی ہو سکتی ہے جس نے اللہ کی طرف بلایااور نیک عمل کیا اورکہا:میں مسلمانوں میں سے ہوں ۔
حوالہ جات:
1. سید محسن امین ،نقض الو شیعۃ،ص181۔
2. آل عمران،28۔
3. نحل،106۔
4. مجمع البیان،ج3،ص388۔تفسیر الکشاف،ج2،ص430۔تفسیر ابن کثیر،ج4،ص228۔
5. غافر،28۔
6. قصص،20۔
7. آل عمران،28۔
8. مفاتیح الغیب ،ج6،ص13۔تفسیررازی ،ج8،ص13۔
9. تاریخ یعقوبی،ج2،ص100۔
10. تاریخ طبری،ج10،ص292۔
11. وسائل الشیعۃ،ج6،
12. وسائل الشیعۃ،ج11،حدیث،6۔
13. وسائل الشیعۃ،باب26،حدیث،2۔
14. فصلت،34،35۔
15. فصلت،33۔
تحریر۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری امورسیاسیات سید اسد عباس نقوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں موجودہ ملکی سیاسی صورتحال پر سیاسی کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانامہ کیس میں حکمران جماعت نے جھوٹ فریب اور دھوکہ دہی کے ریکارڈ قائم کر لیا ہے، جے آئی ٹی نے آل شریف کے جرائم سے پردہ اٹھا کر تاریخ رقم کی ہے، ان شاء اللہ بہت جلد کرپٹ مافیا سے ملک و قوم کو نجات ملنے والی ہے، قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں، ہم کسی خاندانی بادشاہت کیلئے ملکی سلامتی کو داوُ پر نہیں لگنے دینگے۔ انہوں نے کہا کہ ثابت ہو گیا کہ ہمارے حکمران صادق اور امین نہیں رہے، قوم کے خون پسینے کی کمائی لوٹنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں، پانامہ کیس کے بعد شہدائے ماڈل ٹاؤن کے خون کا حساب بھی حکمرانوں کے گردن پر ہے۔
انہوں نے کہا کہ 6 اگست کو اسلام آباد پریڈ گراؤنڈ میں تاریخی جلسہ ہوگا، جس میں ملک کے تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کے قائدین شریک ہونگے، قوم کو کرپٹ مافیا سے نجات ملنے تک ہم اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، ملت جعفریہ کیساتھ ن لیگ کی انتقامی کارروائیوں کا جواب ووٹ کی طاقت سے بہت جلد چکا دینگے۔ اسد عباس شاہ نے مزید کہا کہ تمام اپوزیشن جماعتوں اور اتحادی جماعتوں سے رابطے میں ہیں، الیکشن مہم کے حوالے سے مرکزی پولیٹیکل کونسل جلد فیصلہ کریگی، پنجاب میں کرپشن کے کنگز کو مزید پھلنے پھولنے نہیں دینگے۔