وحدت نیوز(آرٹیکل) پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہیں کہ آخر کار چار سال گزرنے کے بعد انھوں نے دیوبندی وتکفیری دھشگردوں کے اصلی چہرے سے پردہ اٹھایااور پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا کے سامنے مدلل انداز سے خود دھشگردوں کے زندہ اعترافات کے ساتھ فتنہ راولپنڈی روز عاشورا 2013 کو واضح کیا اور اس فتنہ کے اغراض ومقاصد بھی انہیں دھشگردوں کی زبانی پوری قوم نے سنے ،اس لئے آج پوری قوم آئی ایس آئی اور پاک فوج کو سلام پیش کرتی ہے، لیکن حق بات یہ ہے کہ ابھی اس فتنے پر بہت کام کرنے کی ضرورت ہے،اس فتنے کے سب کرداروں کو پاکستانی قوم کے سامنے لانے کی ضرورت ہے ابھی فقط اس فتنے کا پہلا کردار ادا کرنے والا گینگ چار سال بعد گرفتار گیا اور ابھی دوسرے اور تیسرے اور باقی سب گینگز کے افراد کو گرفتار کرنا باقی ہےاور مندرجہ ذیل حقائق سامنے لانا باقی ہے
* اسکی پلاننگ کس فرد اور ادارے نے کی ؟
* کیا یہ فقط بیرونی انڈیا اور افغانستان کی ہی پلاننگ تھی یا اندرونی دشمن بھی اس میں شریک تھے؟
* وہ اندرونی دشمن کون ہیں ؟ کیا وہ مشخص ہوئے یا نہیں ؟
* اگر مشخص ہیں تو وہ کون کون ہیں ؟
* کیا انکی گرفتاری عمل میں لائی گئی ؟
* انکے سہولت کار پاکستان کے مختلف شہروں بالخصوص روالپنڈی میں کون کون تھے؟
* وہ گرفتار ہوئے یا نہیں؟
دوسرا گینگ:
اس سانحے کے ایک دن بعد جب ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس کے ہمراہ کرفیو کے ایام میں راولپنڈی کے اس علاقے کا دورہ کیا تو ہم نے وھاں کے اھل سنت اور اھل تشیع سے جو آنکھوں دیکھا حال سنااس کے مطابق ابھی ایک اور گینگ کو گرفتار کرنے کی ضرورت ہے جس نے مدرسہ تعلیم القران اور مسجد کو آگ لگانے کے بعد نزدیک ہی 6 اہل تشیع کی مساجد اور امام بارگاہوں کو نذر آتش کیا.ان مساجد وامام بارگاہوں سے اٹھتے ہوئے آگ کے شعلے اور دھواں، آتش زدہ قران مجید اور دینی کتابیں، مقدسات کی بیحرمتی ، تکفیری جتھوں کی بربریت کا آنکھوں دیکھا حال بتانے والے خوفزدہ لوگ اور سہمی ہوئی مستورات یہ سب المناک مناظر آج بھی آنکھوں کے سامنے گردش کر رہے ہیں۔
اس فتنہ کی تہہ تک پہنچنے کے لئے ان منظم جتھوں کو گرفتار کرنا اور ان سے تفتیش کرنا بہت ضروری ہے ۔
یہ بقول اہلیانِ راولپنڈی کے تقریبا 100 کے لگ بھگ افراد تھے جن کے پاس آتش گیر مواد ، اسلحہ اور لاٹھیاں تھیں اور ایسے مساجد اور امام بارگاہوں کو آگ لگانے کے لئے بڑھ رھے تھے جیسے انھوں نے باقاعدہ پریکٹس اور مشقیں کیں ہوں اور انکے پاس نقشے اور معلومات بھی تھیں یہ سب اس بات کی دلیل ہے کہ بہت بڑی منظم سازش تھی اور بہت سارے اندرونی وبیرونی کردار ملوث ہیں۔
اب ہم سوال کرتے ہیں کہ قوم کو بتایا جائے کہ
* یہ آگ لگانے والے افراد کون تھے ؟
* کیا واقعا لال مسجد سے آئے تھے جیسے بعض عینی شاہدین نے کہا تھا؟
* اگر لال مسجد سے نہیں آئے تو کہاں سے منظم طور پر سے آئے اور آگ لگانے اور دھشگردی پھیلانے کے بعد چلے گئے ؟
* انکا تعلق کس مدرسے ، علاقے اور مرکز سے تھا. کیونکہ مقامی عینی شاہدین اور سیاستدانوں کے بقول وہ راولپنڈی کے نہیں تھےآخر وہ کون تھے.؟
* کیوں ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے ؟
تیسرا گینگ
تیسرا گینگ سوشل میڈیا ، الیکٹرانک اور پرنٹنگ میڈیا پر فتنے کی آگ بھڑکانے والا تھا جو برما ، فلسطین اور شام وغیرہ کے بچوں کی تصویریں اور مظالم دکھا رھا تھا اور جھوٹا پروپیگنڈا کر رھا تھا کہ اہل تشیع نے مدرسے ، مسجد اور مارکیٹ کو آگ لگا دی اور بچوں کو قتل کیا اور پاکستانی عوام کے جذبات سے کھیل رہا تھااور جلتی پر پٹرول ڈال رھا تھا یقینا اس گروہ کی بھی مکمل تیاری تھی اور نشر کرنے کے لئے پہلے ہی مواد تیار کر چکا تھا۔
انکو گرفتار کر کے تفتیش اور تحقیق ہونی چاہیئے کہ
یہ جھوٹا پروپیگنڈا کرنے والے کون کون تھے.؟
ان کا تعلق کس ادارے یا پارٹی یا گروہ سے ہے ؟
کس کے کہنے پر فتنہ پھیلا رہے تھے. ؟
چوتھا گینگ
اس فتنے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا کردار یہ وہ چوتھاگینگ کر رھا تھا کہ جس کے کردار
* انتھا پسند اور تکفیری آئمۃ مساجد جو پورے ملک میں آگ لگانے پر کام کر رہے تھے
* تکفیری فتوے دینے والے مفتیان
* فتنے کو تقویت دینے والے وفاق العلماء ، مدرسے ، مذہبی ادارے اور تنظیمیں
* مذہبی وسیاسی متعصب قائدین
* ضمیر فروش صحافی اور اینکر پرسنز
* دولت کی خاطر ملک کی سالمیت کا سودہ کرنے والے ٹی وی چینلز کے مالکان
ان سب میں کون کون اس فتنے اور سازش کا باقاعدہ حصہ تھے، اسکی بھی تحقیق اور تفتیش ہونی چاہیئےاور مجرم خواہ جتنا ہی با اثر ہو اسے عدالت کے کٹھڑے میں لانا چاہئےاور اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیئے۔
رد المظالم:
راولپنڈی اور اطراف کے بیگناہ سیکڑوں شیعہ نوجوانوں کو گرفتار کیا گیا،چادر اور چاردیواری کا تقدس پامال کیا گیا،انکی زندگیاں معطل ہوئیں اور انھوں نے بیگناہ ہونے باوجود قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، مالی طور پر نقصانات برداشت کئے۔
اور ریاستی ادروں کے مزید بھی ظلم وستم اور تشدد کا نشانہ بننے والے ان افراد کی مظلومیت ثابت ہو گئی. کیا وزارت داخلہ کے پاس اتنی اخلاقی جرأت ہے کہ ایک پریس کانفرنس کے ذریعے ہی سہی پاکستانی قوم اور بالخصوص جن پر ظلم کیا ہے ان سے معافی مانگے اور جو انکا مالی نقصان ہوا اور انہیں اذیتیں برداشت کرنا پڑیں حکومت انہیں اسکا معاوضہ ادا کرے اور جھوٹی الزام تراشی کرنے والے شیعہ قوم سے معافی مانگیں۔
تحریر۔۔۔ڈاکٹر علامہ شفقت حسین شیرازی
وحدت نیوز(آرٹیکل)جسمانی علاج کے مرکز کو ہسپتال کہتے ہیں، لوگ اپنی جسمانی شفا یابی کے لئے ہسپتالوں کا رُخ کرتے ہیں۔ان جسمانی امراض میں سے ایک متعدی مرض جذام یا کوڑھ بھی ہے ۔۱۹۵۸ میں جرمنی کے شہر لائزگ کی رہنے والی ایک ڈاکٹر خاتون نے پاکستان میں کوڑھ (جزام) کے مریضوں کے بارے میں ایک فلم دیکھی۔ موصوفہ کی اس وقت عمر تیس سال کے لگ بھگ تھی۔اس تیس سالہ کافرہ عورت نے ایک مسلمان ملک میں کوڑھ کے مریضوں کے علاج معالجے پر کمر باندھ لی۔
قابلِ ذکر ہے کہ اس وقت پاکستان میں یہ مرض تیزی سے پھیل بھی رہا تھا،لوگ کوڑھ کو بیماری کے بجائے عذاب الٰہی سمجھتے تھے اور کوڑھیوں کے لیے شہروں سے باہر ایسی رہائش گاہیں تعمیر کرا دی گئی تھیں جو کوڑھی احاطے کہلاتی تھیں۔ لوگ منہ اور سر لپیٹ کر مریضوں کے لیے کھانا دیواروں کے باہر سے اندر پھینکتے تھے اور یوں ملک کے قریباً تمام شہروں میں کوڑھی احاطوں کے اندر بیمار انسان سسک سسک کر دم توڑ رہے تھے۔
ایسے میں اس خاتون نے جرمنی سے کراچی آنے کا فیصلہ کیا اورکراچی ریلوے اسٹیشن کے پیچھے میکلوڈ روڈ پر چھوٹا سا سینٹر بنایا اور کوڑھیوں کا علاج شروع کر دیا۔ انہوں نے اس مرض سے مقابلے کے لئے سوشل ایکشن پروگرام بنایا۔ اس پروگرام کے دو مقاصد تھے ایک لوگوں کو یہ باور کرانا کہ کوڑھ عذابِ الٰہی نہیں بلکہ ایک قابلِ علاج مرض ہے اور دوسرا یہ مقصد تھا کہ اس اس کارِ خیر کے لئے فنڈز اکٹھے کئے جائیں، انہیں دونوں مقاصد میں کامیابی نصیب ہوئی اور ملک کے متعدد حصوں میں جذام کے علاج کے مراکز قائم ہوتے گئے یہانتک کہ ۱۹۹۶ میں عالمی ادارہ صحت نے وطن عزیز پاکستان کو لپریسی کنٹرولڈ ملک قرار دے دیا۔ بات صرف یہیں پر نہیں رکتی بلکہ بات تو یہ ہے کہ پاکستان اس وقت ایشا کا پہلا ملک تھا جسے لپریسی کنٹرولڈ کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
دوسری طرف حکومت ِ پاکستان نے 1988 میں موصوفہ جرمن ڈاکٹر رتھ فاؤ کو پاکستان کی شہریت بھی دی اور انہیں ہلال پاکستان، ستارہ قائداعظم، ہلال امتیاز ، جناح ایوارڈ اور نشان قائداعظم عطا کیا گیا اسی طرح آغا خان یونیورسٹی نے انہیں ڈاکٹر آف سائنس کا ایوارڈ بھی دیا۔
یہ سارے اعزازات اپنی جگہ لیکن مجھے جس چیز نے تعجب میں ڈالا وہ یہ تھی کہ ہمارے مطابق ایک کافرہ عورت نے بیمار انسانوں کے ساتھ جس محبت کا اظہار کیا وہ ناقابلِ بیان ہے۔ آج ہم سب کوڑھ سے بھی بدترین مرض مذہبی و علاقائی تعصب میں مبتلا ہو چکے ہیں۔
عدمِ برداشت، شدت پسندی، دھونس، سفارش ، رشوت، غیبت و تہمت اور قتل و غارت کا وائرس عام ہے۔ ان امراض کے علاج کے لئے ہمیں اپنے روحانی مراکز یعنی مساجد و مدارس کی طرف رجوع کرنا چاہیے لیکن کیا کریں اب ہمارے ملک میں کوئی مسجد بھی اسلامی کی مسجد نہیں رہی ، ہر مسجد ایک مخصوص فرقے کی ہے ، کوئی دوسرے فرقے والا اس میں داخل ہونے کی سوچ ہی نہیں سکتا اور بعض دینی مدارس تو اس عدم برداشت اور نفرتوں کے اصلی مراکز ہیں ۔۔۔
مشال خان کے قتل میں یونیورسٹی انتظامیہ اور سیاسی پارٹیوں کا ملوث ہونا، نورین لغاری کا داعش کو جوائن کرنا، ہسپتالوں میں ڈاکٹروں کا مریضوں کے گردے نکال کر بیچ دینا اور جعلی سٹنٹ ڈالنا، بعض مساجد سے مسلمانوں کی تکفیر کے فتوے جاری ہونا، بعض مدارس میں دہشت گردی کی ٹریننگ دئیے جانا، ریاست کے اندر ریاست قائم کرنے کی سوچنا، بلوچی اور پٹھان و پنجابی و سندھی کے جھگڑے ، یہ سب کیا ہے۔۔۔!؟
ایسے میں ہم سب کو اور خصوصا ہمارے دینی و سیاسی مصلحین کو سوچنا چاہیے کہ اگر ایک کافرہ عورت ہم مسلمانوں کے ساتھ محبت اور خلوص کا برتاو کر کے پاکستان کو لپریسی کنٹرولڈ ملک بنا سکتی ہے تو کیا ہم لوگ ایک دوسرے سے محبت آمیز اور خلوص بھرا برتاو کر کے اس ملک کو شدت کنٹرولڈ اور کرپشن سے پاک ملک نہیں بنا سکتے۔
کیا ہمارے اندر ایک کافرہ عورت جتنی بھی پاکستان میں بسنے والے انسانوں سے محبت نہیں ہے۔ یا پھر ہم سب جذام سے بھی کسی بڑے مرض میں مبتلا ہو چکے ہیں!!!
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری ، سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا، جمیعت علمائے پاکستان(نیازی)کے رہنما پیر معصوم نقوی اور دیگر شیعہ سنی علما ءنے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کیا ۔اس موقعہ پر بڑی تعداد میں میڈیا کے نمائندے موجود تھے۔ علامہ ناصر عباس جعفر ی نے کہا ہے کہ دس محرم کا واقعہ راولپنڈی جیسے حساس علاقے کو غیر مستحکم کرنے کی سازش تھی ۔اس سازش میں ہمارے لوگوں کے خلاف من گھڑت مقدمات قائم کیے گئے ۔ حقیقت آشکار ہو جانے کے بعد ان مقدمات کا کوئی جواز باقی نہیں ۔ہمارے نوجوانوں کے خلاف سانحہ عاشور کی درج ایف آئی آر کو فوراً خارج کیا جائے۔ مسجد کے کسی حصے کو جلوس والے سائیڈ سے نقصان نہیں پہنچا بلکہ اسے عقب سے جلایا گیا۔اس روز راولپنڈی کے بیشتر اعلی ٰانتظامی افسران شہر سے باہر تھے۔سوشل میڈیا پر برما اور شام کے بچوں کی تصاویر شیئر کر کے لوگوں کو مشتعل کیا گیا۔راولپنڈی میں 6امام بارگاہوں اور مساجدکو کیمیکل کی مدد سے جلایا گیا۔جس میں قرآن پاک اور تبرکات بھی نذر آتش ہو گئے۔دہشت گردوں کے سہولت کاروں نے میڈیا پر آکر جلتی پر تیل کا کام کیا۔رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے حکم پر ہمارے بے گناہ لوگوں کو گھروں سے اٹھایا گیا۔ چادر چار دیوار کا تقدس پامال کیا گیا ۔ہمارے گولڈمیڈلسٹ نوجوانوں کا مستقبل تباہ ہوا۔پولیس کے وحشیانہ تشدد کے نیتجے میں ہمارے کئی نوجوانوں کو معذوری کا بھی سامنا کرنا پڑا۔اکثر افراد کو ملازمتوں سے نکالا گیا۔ہمارا مطالبہ ہے کہ رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔یہ لوگ کسی معافی کے مستحق نہیں ہیں۔انہوں نے پنجاب میں ظلم و ستم کا بازار گرم کیے رکھا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں درود و سلام پڑھنے والوں کو پابند سلا سل کیا جا تا رہا۔ قائد اعظم کے پرامن پاکستان کو تکفیری ریاست بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جسے شیعہ سنی مل کر ناکام بنائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ملت تشیع کے بہت سارے نوجوان لاپتہ ہیں۔ہمارا مطالبہ ہے کہ انہیں عدالت کے روبرو پیش کیا جائے۔اگر وہ مجرم ہیں تو انہیں سزائیں دی جائیں اور اگر وہ بے گناہ ہیں تو پھر انہیں رہا کیا جانا ہی انصاف کا تقاضہ ہے۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف نا اہل ہو چکے ہیں۔نیب کے سامنے پیش ہونے سے انکار قانون و آئین کی پامالی ہے جو شخص جے آئی ٹی اور سپریم کورٹ کی تضحیک کرتا ہے وہ قانون کی بالادستی پر قطعی یقین نہیں رکھتا۔ئی کورٹ پر وکلا کا حملہ قابل مذمت ہے۔ وکلا کا تعلق ایک پڑھے لکھے طبقے سے ہے انہیں قانون کی پاسداری کرنی چاہیے۔ پاکستان کا استحکام قانون کی عملداری سے مشروط ہے۔
سنی اتحاد کونسل کے چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ اس سازش کو آشکار کرنے پر ہم پاک فوج کے مشکور ہیں۔جس مسجد و مدرسے کو آگ لگائی گئی تو اس کا تعلق سنی مکتبہ فکر سے نہیں تھا۔جو نام نہاد سکالر میڈیا پر آکر اس واقعہ کو شیعہ سنی کارستانی قرار دے رہے تھے انہیں بھی گرفتار کیا جانا چاہیے۔رانا ثنا اللہ اور شہباز شریف کے کالعدم مذہبی جماعتوں سے رابطے ہیں۔ نون لیگ در حقیقت عسکری جماعتوں کا سیاسی ونگ ہے۔انہوں نے کہا سانحہ عاشور کے اسیروں کی مشکلات کا ازالہ کیا جائے۔نا اہل وزیر اعظم نواز شریف کی رہائش گاہ جاتی امرا کو حکومت کی طرف سے تحفظ فراہم کیا جانا سمجھ سے بالا تر ہے۔شریف خاندان کے تمام افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالے جائیں۔جمیعت علمائے پاکستان(نیازی) کے رہنما سید معصوم نقوی نے کہا کہ پاکستان کی سالمیت و بقا کی جنگ شیعہ سنی مشترکہ طورپر لڑ رہے ہیں۔شیعہ سنی اتحاد میں دنیا کی کوئی طاقت رخنہ نہیں ڈال سکتی۔انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا انجام جیل ہے انہیں بھاگنے نہیں دیا جائے گا۔اس کے محل کا گھیراؤ کیا جائے گا۔سانحہ راولپنڈی کے پس پردہ تمام چہروں کو بے نقاب کیا جانا چاہیے۔
وحدت نیوز(گلگت ) گندم کی ترسیل کا ٹھیکہ لوکل ٹرانسپورٹ کمپنی (نیٹکو ) سے اٹھانا صوبائی حکومت کا بدنیتی پر مبنی اقدام ہے۔ ناردرن ایریاز ٹرانسپورٹ کمپنی علاقے کے ہزاروں لوگوںکو روزگار فراہم کررہی ہے،حکومت کے اس اقدام سے علاقے میں بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہوگا۔حکومت اپنا فیصلہ واپس لے اور گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو کے سپرد کرے۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان الیاس صدیقی نے صوبائی حکومت کے گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو سے اٹھانے کے اقدام کو بدنیتی پر مبنی اقدام قرار دیا ہے۔مرکز میں نواز لیگ نے اداروں کو تباہ کردیا اورگلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ حفیظ الرحمن و نواز شریف کے نقش قدم پرگامزن ہیں۔نیٹکو ایک قومی ادارہ ہے جس نے علاقے میں ہزاروں لوگوں کو روزگار فراہم کیا ہے ،ادارے نے گندم ترسیل کیلئے کروڑوں کی مشینری خریدی ہے گندم ترسیل کا ٹھیکہ نیٹکو سے اٹھانے کی صورت میں مشینری بیکار ہوگی اور کئی افراد کے گھروں کے چولہے بجھ جائینگے۔
انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت کی عدم توجہی کے باعث بارڈر ٹریڈ تباہ ہوچکا ہے اور اب بددیانت حکمران نیٹکو کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ حکومت اپنے منطور نظر افرادکو نوازنے کیلئے حیلے بہانے تراش رہی ہے اور کسی پرائیویٹ شخص کو ٹھیکہ دیا گیا تو گندم خرد برد ہونے کے قوی امکانات ہیں۔انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان میں نیٹکو واحد ادارہ ہے جس سے علاقے کے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے اپنے من پسند افراد کو نوازنے کیلئے قومی منافع بخش اداروں کی تباہی سے گریزکیا جائے۔انہوں نے کہا کہ نواز لیگ کی ملک دشمنی عیاں ہوچکی ہے اور ان کے جرائم کا پردہ چاک ہوچکا ہے اور بہت جلد عوام کو ان بددیانت حکمرانوں سے نجات کی نوید مل جائیگی۔
وحدت نیوز(لاہور) مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے صوبائی کابینہ کا اجلاس سیکرٹری جنرل پنجاب علامہ مبارک موسوی کی زیر صدارت صوبائی سیکرٹریٹ لاہور میں منعقد ہوا ،اجلاس میں پروفیسر ڈاکٹر افتخار حسین نقوی،علامہ محمد اقبال کامرانی،علامہ ملازم نقوی،سید حسن کاظمی،علمدار حسین،زاہد حسین مہدوی سید حسین زیدی سمیت دیگر رہنماوں نے شرکت کی،اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مبارک موسوی نے کہا کہ مسلم لیگ ن اداروں کیساتھ تصادم کی پالیسی پر گامزن ہے،ن لیگ اپنے کالے کرتوت چھپانے کے لئے اعلیٰ عدلیہ اور قومی سلامتی کے ادروں کیخلاف ہرزہ سرائی کر رہی ہے،جسے کوئی بھی محب وطن برداشت نہیں کر سکتا،عدالتوں میں پیش نہ ہو کر آل شریف توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ سانحہ ماڈل ٹاوُن پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ کو منظرعام پر لایا جائے،پنجاب حکومت محرم سے قبل ملت جعفریہ کو ہراساں کرنے کے لئے انتظامیہ کے ذریعے بانیان مجالس پر پنجاب کے مختلف اضلاع میں دباوُ ڈالنے میں مصروف ہے،ہم عزاداری امام حسین علیہ السلام پر کسی بھی قد غن کو قبول نہیں کریں گے،چاردیواری کے اندر مجالس عزاء ،روائتی جلوس ہائے عزاء کو محدود کرنے کی کسی بھی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دینگے،علامہ مبارک موسوی نے کہا ہے کہ پنجاب میں ملت جعفریہ سے تعلق رکھنے والے درجنوں علماء اور پڑھے لکھے نوجوان تاحال لاپتہ ہیں،سی ٹی ڈی اور پولیس کے ذریعے پنجاب حکومت صوبے بھر میں ملت جعفریہ کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں،ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ ہمارے مسنگ پرسنز کو عدالتوں میں پیش کیا جائے،انہوں نے کہا کہ پنجاب میں ملت جعفریہ کو شرپسندوں کیساتھ ساتھ ن لیگی حکومت کے انتقامی کاروائیوں کا بھی سامنا ہے،انتہا پسندکالعدم جماعتوں کو پنجاب میں ن لیگ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے،اجلاس میں مرکزی دعائے عرفہ کا اجتماع 9 ذی الحج کو لاہور میں منعقد کروانے کا بھی اعلان کیا گیا۔
وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے انکشاف کیا ہے کہ 2013ء میں سانحہ راولپنڈی میں حملے کرنے والے کا نیٹ ورک پکڑا گیا ہے اور مسجد پر حملہ کرنے والوں میں اسی مسلک کے لوگ شامل تھے۔ جی ایچ کیو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے میجر جنرل آصف غفور کا کہنا تھا کہ راولپنڈی میں مسجد پر حملہ کرنے والے اسی مسلک کے تھے، مسجد میں آگ لگانے والوں کا مقصد فرقہ واریت کو ہوا دینا تھا۔ اس موقع پر کالعدم تحریک طالبان کے دہشتگرد اجمل خان کا اعترافی بیان بھی چلایا گیا۔ بیان میں اس کا کہنا تھا کہ میرا تعلق باجوڑ سے ہے اور میں 2012ء میں پاکستان آیا، ہم 8 لوگ ہیں، ہمیں ہدایات دی گئیں کہ 10 محرم کو کالے کپڑے پہن کر حملہ کرو، اس سے شیعہ اور سنی آپس میں لڑیں گے اور حالات خراب ہوجائیں گے۔ پاک فوج کے ترجمان کا کہنا تھا کہ حملے کے بعد ایسا دعویٰ کیا گیا کہ شیعہ تنظیم نے اس کی ذمہ داری قبول کی ہے، آئی ایس آئی نے اس پر بہت کام کیا اور پورا نیٹ ورک بے نقاب کیا ہے۔