وحدت نیوز(آرٹیکل) جب کوئی فوجی اتحاد بنتا ہے تو وہ کسی مشترکہ دشمن کے خلاف بنتا ہے. قوم کو بتایا جائے کہ یہ اتحاد کس کے خلاف ہے.؟
1- یہ اتحاد پہلے تو اتحاد ہی نہیں کیونکہ اتحادی نہ اکٹھے ہوئے اور نہ ہی مشترکہ دشمن کا تعین کیا۔

2- عموما مسلمانوں کا علی الاعلان دشمن اسرائیل تھا اب تو وہ بھی سب کا دشمن نہیں رھا کیونکہ بہت سے عرب ممالک جن میں سعودیہ سر فہرست ہے اسرائیل کو اپنا دشمن نہیں مانتے بلکہ بہترین دوست اور پارٹنر مانتے ہیں .تو پھر اس کے خلاف تو یہ اتحاد نہ بنا۔

3- انڈیا بھی ہمارے نزدیک دشمن ہے اسکی فوجی مداخلت سے پاکستان دو حصوں میں تقسیم ہوا .اور کشمیر میں تقسیم ہند کے وقت سے فوجیں اتار کر بیگناہ ہمارے بھائیوں کو قتل کر رھا ہے اور طاقت کے ذریعے قابض ہے. لیکن عربوں اور دیگر اتحاد میں شامل ممالک کا انڈیا گہرا دوست بھی ہے. اس لئے یہ اتحاد انڈیا کے خلاف بھی نہیں۔

4- کہتے ہیں کہ یہ دہشتگردی کے خلاف ہے۔اگر خطے کے حالات کا جائزہ لیں تو گذشتہ 2011 سے خطے میں دو بلاکوں کے مابین جنگ جاری ہے. ایک طرف امریکی بلاک ہے اور دوسری طرف مقاومت کا بلاک.
اب دھشت گرد کون ؟
ہر بلاک دوسرے کو دھشتگرد کہتا ہے۔

امریکی بلاک : ایک طرف امریکہ ، فرانس ، اسرائیل ، ترکی ، سعودی عرب ، قطر ، امارات پوری طاقت کے ساتھ پیسے ، جدید ترین اسلحہ ، انٹیلیجنس معلومات اور ٹریننگ مختلف مسلحہ گروہوں کو فراہم کر رہے ہیں. جن میں النصرۃ فرنٹ ، القاعدہ اور داعش سر فہرست ہیں. اور انکے روابط کسی سے پوشیدہ نہیں . بلکہ بنانے والے خود بھی ان تعلقات کا اعتراف کر چکے ہیں. ان تکفیری مسلح گروہوں کو سعودی عرب اور اسکے اتحادی دشمن نہیں سمجھتے بلکہ جہاں پر بھی قابض ہوئے وہ علاقہ ان مسلح گروہوں کے حوالے کیا. جیسے لیبیا میں قذافی حکومت گرا کر اب انہیں وھاں مضبوط کر دیا گیا ہے . یمن میں بھی جو علاقے سعودیہ اور اسکے اتحادیوں کی بمبارمنٹ سے خالی ھوئے وھاں پر یہی گروہ مسلط ہوئے. اور اسی طرح باقی ممالک میں بھی. تو ثابت ہوا کہ یہ فوجی اتحاد ان تکفیری مسلح گروہوں کے خلاف بھی نہیں بن رہا۔

5- مقاومت کا بلاک : انکے مد مقابل اس مسلط کردہ جنگ میں اپنا دفاع کرنے والے ممالک اور انکے اتحادی ہیں. جن میں شام ، عراق ، ایران ، حزب اللہ ، انصار اللہ ، حشد الشعبی ، روس اور چین ہیں۔

عقل ومنطق اور تازہ ترین صورتحال تو یہی کہتی ہے کہ یہ اتحاد تکفیری مسلح گروہوں کے عراق و شام سے قدم اکھڑ جانے اور پے در پے شکست کھانے کے بعد بنایا جا رھا ہے. اس کا ہدف انھیں زندہ رکھنا اور جن قوتوں کے خلاف یہ لڑ رھے تھے انکے خلاف جنگ کرنا ہی ہو سکتا ہے ۔

یا تو یہ اتحادی سب کے خلاف علی الاعلان لڑیں گے یا ان میں تقسيم کی پالیسی اختیار کی جائے گی.اور بعض کے خلاف جنگ لڑی جائے گی. اب ہر پاکستانی اپنی حکومت سے یہ پوچھنے کا حق رکھتا ہے کہ کیا یہ مقاومت کا بلاک ہمارا دشمن ہے.؟ یا اس بلاک کے اندر ہماری دشمن قوتیں شامل ہیں ؟ اگر کوئی ہے تو وہ کون ہے.؟ کیا وہ شام ہے یا عراق، ایران ہے یا حزب اللہ ، یا انصار اللہ یا یمن ، یا روس ہے یا چین.؟ ہمارے حکمرانوں کو اسے پاکستانی عوام کے سامنے واضح کرنا ہو گا. البتہ دوسرا بلاک (امریکی بلاک ) پاکستان کے دوست نما دشمنوں سے بھر پڑا ہے. جس میں امریکہ ہے جو پاکستان میں ڈرون حملے کرتا ہے. پاکستان پر اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے. وغیرہ وغیرہ ۔

اسرائیل ہے جسے پاکستان تسلیم ہی نہیں کرتا اور نہ ان سے ہمارے سفارتی تعلقات ہیں. جو ہمیشہ سے اس گھات میں ہے کہ ہمارے ایٹمی پروگرام پر عراق اور سوڈان کی طرز کا حملہ کر دے۔

اس بلاک کی سرپرستی میں وہ مسلح تکفیری گروہ ہیں جو پاکستان کے خلاف جہاد کے فتوے دے چکے ہیں. جن کا قلع قمع کرنے کے لئے ہم نے ضرب عضب اور رد الفساد جیسی عسکری کارروائیوں کا اعلان کیا. کیا ہم پاکستان میں ان سے لڑیں گے اور بیرون ملک انکی تقویت کریں گے۔

اور کیا اس اتحاد کا بانی سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کی پاکستان میں دہشگردی کرنے والے مدارس ، شخصیات ، مراکز اور تنظیموں کی مدد اور پاکستانی امور میں مداخلت کسی سے پوشیدہ ہے. کیا گوادر پورٹ کو یہ ہضم کر پائیں گے یا اس اقتصادی ترقی کی امید کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچنے سے پہلے سبوتاژ کرنے کی پوری کوشش کریں گے ؟

براہ کرم اس فاسٹ میڈیا کے دور میں پاکستان عوام کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش نہ کی جائے اور اس حساس فیصلے پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے اور تمام شکوک وشبہات کی وضاحت کی جائے اور اسے مذھنی رنگ نہ دیا جائے اور نہ ہی مخصوص سوچ کی تاثیر میں اتنا بڑا قومی فیصلہ کیا جائے۔

 

 

تحریر۔۔۔ڈاکٹرعلامہ سید شفقت حسین شیرازی

وحدت نیوز(آرٹیکل) آج علی الصبح کا واقعہ ہے، سات اپریل ۲۰۱۷کو ، جمعۃ المبارک کے دن ، مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے،  شام پرکروز میزائلوں سے حملہ کیا،   شام کے مقامی وقت کے مطابق جمعے کی صبح 4 بجکر40 منٹ پر یہ حملہ کیا گیا۔ شام پر امریکی کارروائی کے بعد روس نے سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کر دیا ہے ،  روسی دفاعی کمیٹی کے سربراہ نے کہا ہے کہ شام میں امریکی فضائی حملہ دہشت گردی کے خلاف مقابلے کی کوششوں کو کمزور کرسکتا ہے۔ دوسری طرف  عرب میڈیا کے مطابق سعودی عرب نے شام میں امریکی فضائی کارروائی پر مکمل حمایت کا اظہار کیا ہے  اور اسی طرح  اسرائیل نے بھی  شام پر امریکہ کے حملے کی حمایت کی ہے۔

امریکہ کا شام پر حملہ کرنا اور سعودی عرب اور اسرائیل کا حمایت کرنا  اس بات کی دلیل ہے کہ امریکہ ، سعودی عرب اور اسرائیل اتحادی ہیں۔ لیکن در حقیقت یہ اتحادی نہیں ہیں بلکہ ان تینوں ممالک میں سعودی عرب کی حیثیت فقط ایک قربانی کے بکرے کی سی ہے۔  سچ بات تو یہ ہے کہ امریکی اور اسرائیلی اتحاد میں شامل ہونے کی وجہ سے سعودی عرب کی بین الاقوامی حیثیت کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اب سعودی عرب جو کام بھی کرتا ہے وہ در اصل امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے ہی ہوتا ہے۔ سعودی عرب کے پاس نہ ہی تو کوئی اپنا ایجنڈا ہے اور نہ ہی وہ ایسی پوزیشن میں ہے کہ وہ امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ کندھا ملانے کے بعد اپنے کسی ایجنڈے کا اعلان کر سکے۔

دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سعودی عرب نے جو اسلامی ممالک کا اتحاد بنایا ہے ، اس میں بھی  صرف وہی ممالک شامل نہیں ہیں جو امریکہ اور اسرائیل کے ناپسندیدہ ہیں، اسی طرح اس اتحاد کا ایجنڈا اگر اسلامی ممالک کی حفاظت ہے تو یہ اتحاد عالم اسلام کے دیرینہ مسائل مثلا کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے بھی لا تعلق کیوں ہے!؟

باقی رہا  جنرل راحیل شریف کی طرف سے اس اتحاد کی قیادت کرنے کا ایشو، اگرچہ یہ کہا جاتا ہے کہ  یہ پاکستان کے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے کہ وہ عالمی اسلامی فوج کی قیادت کرے۔ یہ اعزاز سر آنکھوں پر، البتہ یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اعزاز ہمیں تبھی حاصل ہو سکتا ہے کہ جب یہ اتحاد واقعتا اسلامی اتحاد ہو اور دنیائے اسلام کے دفاع کے لئے کام کرے ۔ لیکن اگر یہ اتحاد امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کے لئے کام کرتا ہے تو ہمیں اعزاز نصیب ہونے کے بجائے مزید ذلت، رسوائی اور عالمی سطح پر تنہائی نصیب ہو گی۔

سعودی حکام کے لئے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ اگر یہ اتحاد اسلامی اتحاد ہے تو پھر اس اتحاد کے داعی سعودی عرب کو فوری طور پر چند قدم اٹھانے چاہیے:۔

۱۔ سعودی عرب کو اپنے برادر  اسلامی ملک یمن  کے خلاف فوج کشی کو فورا روکنا چاہیے

۲۔ بحرین کے مسلمانوں  سے  جذبہ خیر سگالی کے  اظہار کے طور پر  شیخ عیسی قاسم  کو عزت و احترام کے ساتھ تمام مقدمات سے بری کیا جانا چاہیے

۳۔ قطیف میں مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ناروا سلوک کو ختم کیا جائے اور ان سے قید و بند کی صعوبتوں کو ہٹایا جائے

۴۔  عالم اسلام کے قلب یعنی مکہ المکرمہ اور مدینہ منورہ میں کشمیر اور فلسطین  کی آزادی  کے لئے بین الاقوامی اسلامی کانفرنس بلائی جائے

۵۔ سعودی عرب اپنے تمام ہم فکر جہادی گروہوں کو  آفیشل طور پر فلسطین اور کشمیر کو آزاد کرانے کا حکم صادر کرے

۶۔ سعودی عرب میں موجود تمام صحابہ کرام ؓ  اور اہلبیت اطہار ؑکےمزارات کو از سر نو تعمیر کر کے امت مسلمہ کے درمیان  وحدت و مواخات کی فضا قائم کی جائے

۷۔دہشت گردی کے خلاف فرنٹ رول اداکرنے والے مسلم ممالک خصوصا ، شام، عراق، اور ایران کی خدمات کا اعتراف کیا جائے اور انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ان سے خصوصی مدد لی جائے

۸۔ سعودی عرب اس حقیقت کو ہمیشہ مد نظر رکھے کہ امریکہ اور اسرائیل کو صرف اپنے مفادات عزیز ہیں اور ان  کا کوئی بھی مستقل دوست نہیں ہے۔ لہذا اگر  سعودی عرب حقیقی معنوں میں اسلامی تحاد قائم کرنے کی کوشش کرے تو یہ خود سعودی عرب کی بقا کے لئے بھی ضروری ہے۔

امریکہ کی تاریخ شاہد ہے کہ  امریکہ نے طالبان سے فائدہ اٹھا یا اور پھر خود ہی ان کا کام تمام کردیا، صدام سے استفادہ کیا ہے اور پھر خود ہی اسے تختہ دار پر لٹکا دیا، قذافی کو امیرالمومنین بنایا ہے اور پھر خود ہی اسے نشانِ عبرت بنادیا، حسنِ مبارک کو پٹھو بنایا اور پھر اسے وقت کے کوڑے دان میں پھینک دیا۔۔۔

اگر سعودی عرب نے امریکہ اور اسرائیل سے دوری اختیار نہیں کی تو پھر یہ ٹھیک ہے کہ آج  ۲۰۱۷ میں ، سات اپریل کو ، جمعۃ المبارک کی صبح مشرقی بحیرہ روم میں تعینات، امریکی بحری بیڑے نے،  شام پرکروز میزائلوں سے حملہ کیا، لیکن جب امریکہ نے اپنے مفادات ، شام  ، روس ، عراق اور ایران کو خوش کرنے میں دیکھے  تو پھر طالبان اور صدام کی طرح امریکی  میزائلوں کا رخ سعودی عرب کی طرف بھی مڑ سکتا ہے، شاہ فیصل کی طرح ، مزید سعودی حکمران  بھی قتل ہو سکتے ہیں اور سعودی شہزادے ہی سعودی بادشاہت کو خاک و خون میں غلطاں کر سکتے ہیں۔

یہ سعودی عرب کے لئے ، انتہائی سنہرا موقع ہے کہ   سعودی عرب ، امریکہ اور اسرائیل کے ایجنڈے کی تکمیل کے لئے “ اسلامی اتحاد”   کا نام استعمال کرنے کے بجائے حقیقی معنوں میں اسلامی اتحاد کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اپنے ہمسایہ ممالک سے کشیدگی ختم کرے، یمن اور بحرین کے خلاف طاقت کے استعمال کو ترک کرے ، کشمیر و فلسطین کو اپنی ترجیحات میں شامل کرے اور امریکہ اور اسرائیل کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کرے،  اسی میں سعودی عرب کی عزت اور مسلمانوں کی بھلائی ہے۔

یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ  امریکی میزائل  اپنے دوست اور دشمن کو نہیں دیکھتے بلکہ اپنے مفادات کو دیکھتے ہیں۔

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان صوبہ سندھ کے سیکریٹری امور سیاسیات علی حسین نقوی نے کہا کہ پاک فوج کی طرف سے دہشتگردی کے خلاف آپریشن رد الفساد کے فیصلہ کو لائق تحسین قرار دیتے ہوئے اسے حالات کے عین متقاضی قرار دیا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے وحدت سیکریٹریٹ سولجربازار میں پولیٹیکل کونسل کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے کیا،اس موقع پر کراچی ڈویژن کے سیکرٹری سیاسیات تقی ظفر،ندیم جعفری ،حسن عباس ودیگر موجود تھے۔

 ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لیے پاک فوج کے موثر اقدامات عوامی خواہشات کی ترجمانی کرتے ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے میں اگر حکومت کی طرف سے سنجیدہ اقدامات کیے جاتے تو آج ملک کو اتنے سانحات نہ دیکھنے پڑتے۔ شرپسندوں کے خلاف آپریشن میں رینجرز کو مکمل اختیار دیئے جانے چاہیے تاکہ سیاسی دباؤ سمیت کوئی بھی بیرونی مداخلت ان پر اثر انداز نہ ہوسکے۔

انہوں نے دہشت گردی کے خلاف فوج کے عزم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ آپریشن ردالفساد مطلوبہ نتائج کے حصول تک جاری رہنا چاہیے تاکہ وطن عزیز دہشت گردی کی لعنت سے پاک ہو سکے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں اچھے برے طالبان کے نام پر منفی قوتوں کی سرپرستی کی گئی جس کے نقصانات پوری قوم کو اٹھانا پڑے۔ نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل آپریشن ردالفساد کی کامیابی کی ضمانت سمجھا جائے گا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم پاک فوج کے ساتھ کھڑی ہے۔

وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ ملک کے وسیع تر مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے پانامہ کیس کے فیصلہ کو اب سامنے آجانا چاہیے۔پوری قوم کی نظریں عدالت عالیہ کی طرف لگی ہوئی ہیں۔بیس کروڑ عوام غیر یقینی کی کیفیت سے دوچار ہے۔ملک کے ہر شخص یہ یہ خواہش ہے کہ اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ اور اختیارات کی بجائے قانون و انصاف کی حکمرانی ہو۔انہوں نے کہا کہ موجودہ حکمرانوں توانائی کے بحران پر قابوپانے کے بلند و بانگ دعووں کو عملی شکل دینے میں ناکام رہے ہیں۔وفاقی وزیر برائے بجلی و پانی خواجہ آصف کی یہ منطق سمجھ سے بالاتر ہے کہہ جہاں بجلی چوری ہو گی وہاں بندش لازمی ہو گی۔انہوں نے کہا حکومت بجلی چوری پکڑنے کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہو کر عام عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب میں مبتلاکر کے یہ ثابت کر رہے کہ سسٹم کی اصلاح کے لیے ان کے پاس کوئی لائحہ عمل سرے سے موجود نہیں۔کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں پٹرول کی عدم دستیابی عوام کے اضطراب اور غصے میں اضافے کا باعث ہے۔علامہ اقتدار نقوی نے مزید کہا کہ حکومت کی ناکام پالیسیوں نے پورے ملک کو تباہی کے دھانے پر پہنچا دیا ہے۔انہوں نے کہا پاکستان سے لوٹی جانے والی تمام رقم قومی سرمایہ ہے جسے ہر حال میں واپس آنا چاہیے۔ملکی نظام کو بہتر بنانے کے لیے سب سے زیادہ اہم کرپٹ عناصر سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔ جب تک ملک کو مخلص اور ایماندار حکمران نصیب نہیں ہوں تب تک ملکی نظام کو بہتر بنانے کی کوئی بھی کوشش سود مند ثابت نہیں ہو سکتی۔اقتدار تک رسائی حاصل کرنے کے لیے کوشاں کرپٹ سیاستدانوں کے سیاسی حربوں کو قوم اپنی دانشمندی اور بصیرت سے شکست دے تاکہ ملک حقیقی معنوں میں ترقی کی طرف گامزن ہو۔

وحدت نیوز(لاہور) مشرقی وسطیٰ کی پراکسی وار کا حصہ بننے سے قبل سو بار سوچاجائے،ریاست کے فیصلے پارلیمنٹ میں ہوتے ہیں،یہاں فرد واحد بادشاہی طرز کے فیصلے کر رہا ہے،امریکی ایماء پر بننے والے اتحاد کے نتائج افغان وار سے بدتر ہونگے،ملک اس وقت انتہائی نازک صورت حال سے گذر رہا ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علا مہ راجہ ناصر عباس جعفری نے قومی مرکز خواجگان لاہور میں کارکنان و عمائدین شہر سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔

انہوں نے کہا کہ بانیان پاکستان کے اولادوں نے جب بھی پاکستان دشمن پالیسیوں پر تنقید کی ان کو ایران کے ساتھ نتھی کرکے ایک پروپیگنڈا شروع کیا جاتا ہے،ہم پاکستانی ہیں اور بانیان پاکستان کے اولادوں میں سے ہیں ہمیں پاکستان کی سلامتی و استحکام سب سے زیادہ عزیز ہے،ملکی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ ہم نے ہمیشہ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے اپنی جان مال کی قربانی دی ہےاور ہم یہ اعلان کرتے ہیں کہ انشااللہ وقت آنے پر اس ملک کی بقا و سلامتی کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے،مشرقی وسطیٰ میں امریکہ و اسرائیل اور اس کے اتحاد بری طرح ناکام ہوچکے ہیں،وہ مسلمانوں کو تقسیم کرکے اپنی شکست کا بدلہ لینا چاہتا ہے،ایسے میں پاکستان جیسے عظیم اسلامی ایٹمی طاقت ملک کو کسی ایسے سازش کا حصہ نہیں بننا چاہیئے جو مسلم امہ میں انتشار کا سبب بنے،ہم ابھی تک افغان وار کے قرض اتار رہے ہیں ،پاکستان کے اسی80 ہزار عوام کی قربانیوں کے باوجود ابھی تک ہم اس ناسور دہشتگردوں سے جان نہیں چھڑوا سکے،پاکستان کے سیاسی مذہبی جماعتوں کے قائدین ہوش کے ناخن لیں اور ملک کو مشرق وسطیٰ کے دلدل میں دھکیلنے والوں کا راستہ روکیں،علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کہا کہ پانامہ کیس کے فیصلے میں تاخیر کے سبب عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے،امید ہے کہ عدلیہ کا جو بھی فیصلہ ہوگا وہ ملک کے حق میں ہوگا ۔

جہالت کا معاشرہ

وحدت نیوز (آرٹیکل) آج میں اپنے کالم میں معاشرے میں جو جہالت ہے اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں لیکن میرا اپنا تعلق ایک کَٹر بریلوی خاندان سے ہے، یہ محض اس لیئے بتانا مقصود تھا کہ کہیں میری اس تحریر کو کوئی بھی شخص کسی مذہبی فرقہ واریت سے نہ جوڑ دے، کیونکہ یہ بات بھی درست ہے کہ میں کوئی عالم دین اور نہ ہی حافظ قرآن ہوں، یہ تحریر فقط ہمارے معاشرے کا ایک خوفناک پہلو دکھانے کی کوشش ہے۔ ہم سب ہی اولیاء کرام کی تہہ دل سے عزت و احترام کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے کیونکہ اولیاء کرام نے دین اسلام کی ترویج اور تربیت انسانیت میں بہت بڑا کردار رہا ہے جسکو شاید ہی کوئی شخص رد کر سکے، لیکن میری تحریر کا مقصد فقط شر پسند عناصر کی پہچان کروانا ہے۔ ان عظیم پیروں ، فقیروں نے اشاعت اسلام کے لئے اہم کردار ادا کیے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ معاشرے سے شرک بدعت اور رسومات کے خاتمے کے لئے بنیادی کردار ادا کئے پیروں فقیروں سے اللہ نے خوب کام لیا۔

 انہی عظیم لوگوں میں حضرت حسن بصری، حضرت جنید بغدادی، حضرت سید عبدالقادر جیلانی، حضرت مجدد الف ثانی، حضرت نظام الدین دہلوی، حضرت قطب الدین، حضرت امداد اللہ مہاجر مکی، حضرت بہائو الدین زکریا، حضرت علی ہجویری، حضرت میاں میر، حضرت خلیفہ، غلام محمد، حضرت احمد علی جیسی عظیم ہستیاں ہیں۔ یہ ایک طویل فہرست ہے۔معاشرے کے بگڑے ہوئے لوگ ان اکابرین اور ان کے خلفاء کے پاس آتے تھے تو پھر ان کی اصلاح ایسی ہوتی تھی کہ وہ تہجد گزار بن کر برائیوں سے بچنے والے اور نیکیاں کرنے والے بن جاتے تھے۔ لیکن آج اس مقدس مشن کو دولت کے بٹورنے اور دنیا کی اغراض و مقاصد کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے اور حالت یہاں تک آپہنچی ہے جعلی پیر اور عامل معصوم لوگوں کی جان لے رہے ہیں اور دولت جمع کرنا ان کا مقصد بن چکا ہے۔ جعلی پیروں اور عاملوں کی بڑھتی ہوئی یہ تعداد یقیناً ملک و قوم کے لئے نقصان کا باعث ہے کیونکہ ملک میں سادہ لوح عوام اپنے مسائل کے حل کے لئے ان جاہلوں کے حکم پر چلتے ہیں جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنے لوگ جان، مال اور عزت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔

لیکن ہمارے معاشرے میں لوگ عقل کا استعمال کرنا ہی نہیں چاہتے اور اسی کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جعلی عامل اور پیر
لوگوں کو بے وقوف بنا رہے ہیں۔ جعلی پیر ہمارے معاشرے کا وہ کردار ہے جسے ہر کوئی جانتا ہے لیکن پھر بھی لوگ ان کا پیچھا نہیںچھوڑتے۔آخر کب تک یہ لوگ جہالت میں ڈوب کر جعلی پیروں سے اپنی عزتیں لٹواتیں رہے گے؟ 65سالوں میںجعلی عاملین، جعلی پیروں اور جادوگروں کے خلاف کچھ نہیں کیا گیا، اس وقت ملک بھر میں ہزاروں عامل عوام کے مال وجان سے کھیل رہے اورکھلے عام مکروہ دھندے کی تشہیر میں مصروف ہیں، کوئی انہیں پوچھنے والا نہیں،حکومت خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے،ان جاہل عاملوں کے کہنے پر جہالت کے مارے ان کے معتقد دوسروں کو قتل کررہے ہیں اور ماں کی گودیں اجاڑ رہے ہیں، حکومت کو چاہیے فوری طور پر ان عاملوں کے خلاف آپریشن کرے۔

میرے مطابق حکومت کو ایسے تمام آستانے کو بند کرنا چاہئے بلکہ ایسے لوگوں کے خلاف کاروئی ہونی چاہئے اس حوالے سے مذہبی علما کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے تاکہ معاشرے میں ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کا خاتمہ کیا جا سکے۔

واضح رہے ملک میں جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کی بڑی تعداد عوام کی جان، مال، عزت و آبرو کے ساتھ کھیلنے میں مصروف ہے۔آئے دن ان عاملوں کے حوالے سے رونگٹے کھڑے کردینے والا کوئی واقعہ پیش آجاتا ہے۔انتہائی قابل افسوس بات یہ ہے کہ 21ویں صدی میں بھی ملک میں بہت سے لوگ توہم پرستی کا شکار ہیں،سادہ لوح افراد دھڑا دھڑ ان عاملوں کے آستانوں کا رخ کرتے ہیں جن کی بدولت ان کے یہ آستانے آباد ہیں۔ جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے جال میں پھنسنے والوں میں خواتین پیش پیش ہوتی ہیں۔گھریلو جھگڑوں سے نجات، شوہر کوراہ راست پر لانے، مقدمہ بازی، کاروباری بندش، اولاد کے حصول، بیرون ملک رہائش ودیگر مقاصد کے حصول کے لیے خواتین کی بڑی تعداد جعلی عاملوں اور جعلی پیروں کے آستانوں کا رخ کرتی ہیں۔ گلی گلی میں پھیلے عاملوں کے دعوے، اشتہاری مہم، وال چاکنگ، ہورڈنگز، بینرز، پمفلٹ اور اشتہارات کی بھرمارسے متاثر ہوکرمسائل کے گرداب میں پھنسی مختلف طبقات کی تعلیم یافتہ، ان پڑھ، ہرعمر کی خواتین انہیں اپنے مسائل کا ’’ واحد حل‘‘ سمجھنے لگ جاتی ہیں۔ ’’عاملین‘‘ چٹکی بجاتے میں ان کے مسائل کو حل کرنے کا جھانسہ دے کر ان سے بھاری رقوم بٹور تے ہیںاور سادہ لوح مایوس خواتین ان کی چکنی چپڑی باتوں میں آکرمسائل کے حل کے لالچ میں اپنی جمع پونجی سے محرومی سمیت عزت گنوانے جیسے مسائل کا بھی شکار ہوجاتی ہیں۔ملک میں متعدد بار جعلی عاملوں اور پیروں کے ہاتھوں خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی پیش آچکے ہیں۔

دوسری جانب میڈیا بھی عوام کو گمراہ کرنے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جعلی دوایاں، جعلی ڈاکٹر، جعلی پیر، تعویز گنڈے اور نہ جانے کس کس طرح کے اشتہارات شائع کئے جاتے ہیں۔ بلکہ کئی چینلز پر تو کئی ایسے پروگرامز بھی نشر کئے جارہے ہیں جو جعلی عاملوں کے کام کو تقویت دیتے ہیں۔پیمرا کو چاہئے کہ وہ میڈیا پر نشر ہونے والے پروگرامز اور اشتہارات پر پابندی عائداور جعلی پیروں اور عاملوں کے فروغ دینے والے چینلز کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے۔حکومت ،علماء اکرام کی عدم توجہی اور عوام کی جہالت کی بدولت ملک میں ڈبہ پیروں اور جعلی عاملوں کی تعداد میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ جعلی پیروں اور عاملوں کی بڑھتی ہوئی یہ تعداد یقینا ملک و قوم کے لیے نقصان کا باعث ہے، کیونکہ ملک میں سادہ لوح عوام اپنے مسائل کے حل کے لیے ان جاہلوں کے حکم پر چلتے ہیں ، جس کی وجہ سے اب تک نجانے کتنے لوگ جان، مال اور عزت سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
 
بہت سے مختلف واقعات بھی میرے علم میں دوستوں اور میڈیا والوں کی طرف سے آتے رہے لیکن یہ معاملہ ایسا ہی لگنے لگا ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ یہ مرض اب ہمارے معاشرے میں مْوذی مرض کی شکل اختیار کر چکا ہے اور اس مرض کا سب سے زیادہ نقصان اور شکار ہماری خواتین ہیں، اس لیے ہم سب لوگوں کو اپنی خواتین کی اس حوالے سے تربیت کرنی چاہیے ورنہ مردوں کو عذاب الہیٰ کے لیے تیار ہوجانا چاہیے کیونکہ یہ سب کچھ مردوں کی ناک کے نیچے ہو رہا ہے اور اس جرم میں آپ بھی برابر کے شراکت دار بن رہے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جو خواتین بھی ایسے حیوان طبعیت بابووں کی ہوس کا شکار ہوئیں، اْنکے ان گناہوں کا مداوا کیسے ہوگا ؟ خیر یہ تو ہے، ہمارے آج کے معاشرے کا المیہ کہ ہم اصل عقائد بھول کر بہروپیوں کی بھی تقلید اور اْنکے تحفظ اور دفاع میں اْٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی بھی سمجھنے کو تیار نہیں یہ سب جعلی پیر، بابے اور عامل، حقیقی، سچے پیر اور اللہ کے ولیوں کے نام بھی داغدار کررہے ہیں۔ ہم سب کو اپنے اپنے گھروں سے ان کے خلاف آپریشن شروع کرنا چاہیے اور اپنے نیک لوگوں اور اللہ کے پسندیدہ بندوں کی حْرمت بحال کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔


  تحریر۔۔محمد عتیق اسلم  

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree