وحدت نیوز (آرٹیکل)  زندگی کوشش اور کاوش کا نام ہے، اچھائی کے کے لئے کوشش اور بھلائی کے لئے کاوش کبھی رائیگاں نہیں جاتی،  فرعون وقتی طور پر بچوں کا خون بہا سکتے ہیں اور ماوں کے حمل گرا سکتے ہیں لیکن موسیٰ ؑ کی ولادت کو نہیں روک سکتے۔ دنیا میں اچھائی اور برائی، خیر اور شر، موسیٰ و فرعون کی جنگ ہر دور میں لڑی گئی اور لڑی جاتی رہے گی۔ اچھائی اور بھلائی کی خاطر مارے جانے والے تاریخ کے تاریک صفحات پر اُمید کے روشن ستارے بن کر جگمگاتے ہیں،انہی  روشن ستاروں سے آنے والی نسلیں رہنمائی حاصل کرتی ہیں اور اپنے قلم کو عصا بنا کر وقت کے نیل کو دولخت کرتی ہیں۔

گزشتہ دنوں سیالکوٹ کے مصر میں ایک فرعون صفت  مسلم لیگ ن کے یوسی چیئرمین  عمران اسلم چیمہ نے اپنی ڈیوٹی پر مامور نہتے صحافی کو گولیاں مار کر موت کے گھاٹ اتار دیا۔تفصیلات کے مطابق  سمبڑیال میں نوائے وقت کے نمائندے ذیشان اشرف بٹ کو بیگووالہ کے دوکانداروں نے شکایت کی کہ چیئرمین یونین کونسل بیگووالہ نے ناحق دکانداروں پر ٹیکس عائد کر رکھا ہے ۔ شکایت ملنے پر نمائندہ نوائے وقت ذیشان اشرف بٹ یونین کونسل بیگووالہ کے ن لیگی چیئرمین عمران اسلم چیمہ سے معلومات لینے کیلئے جب اس کے دفتر پہنچا اور  دکانداروں کی شکایت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی تو عمران اسلم چیمہ طیش میں آگیا جس پر اس نے اور اسکے ساتھیوں نے آتشیں اسلحہ سے فائرنگ کرکے ذیشان اشرف بٹ کو شدید زخمی کر دیا اور بعد ازاں موقع پر ہی یہ صحافی جاں بحق ہو گیا۔

یہ اپنی نوعیت کا پہلا یا آخری قتل نہیں ہے، جب تک یہ دنیا باقی ہے اس میں نیکی اور برائی کا ٹکراو ہوتا رہے گا، بے شک نون لیگی  چئیرمین اپنے اس کارنامے پر اتراتا ہوگا اور مختلف لوگوں نے ا اس بہادری پر مبارکبادی کے ڈونگرے بھی برسائے ہونگے  لیکن سوچنے کا مقام یہ ہے کہ ہم لوگ کس دور میں جی رہے ہیں۔؟کس صدی میں سانس لے رہے ہیں ؟اور  کیوں ہمارے اخلاقی رویے ابھی تک پتھروں کے دور کا پتہ دے رہے ہیں۔؟

یہ قتل کسی شدت پسند تنظیم نے نہیں کیا بلکہ ایک ملک گیر سیاسی تنظیم کے چئیر مین نے کیا ہے ، یہ ہمارے ہاں کی سیاسی تنظیموں کا حال ہے تو پھر شدت پسند تنظیموں سے گلہ ہی کیا کیا جائے۔ بات صرف کسی ایک سیاسی تنظیم تک محدود نہیں بلکہ جس کے پاس طاقت ہے اس کا یہی حال ہے،  اور وہ اسی طرح طاقت کے نشے میں مست ہے، مشال خان کا قتل ہوا تو اس کے پیچھے بھی سیاسی ہاتھ تھا اور  راجپوتانہ ہسپتال میں گزشتہ سال  ایک ڈاکٹر کی ہٹ دھرمی  کے باعث ایک مریضہ دم توڑگئی  تو کئی دنوں کے احتجاج اورہڑتال کے باوجود  اس ڈاکٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی ، اس مریضہ کا قصور بھی یہ تھا کہ وہ ایک صحافی “ کامران کورائی” کی ماں تھی۔

یہ لوگ جنہیں حق اور سچ بولنے کی پاداش میں نشانِ عبرت بنا دیا جاتا ہے، جنہیں جھوٹ کو بے نقاب کرنے کے صلے میں صلیبوں پر گاڑھ دیا جاتا ہے، جنہیں کلمہ حق لکھنے کی سزا کے طور پر موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے، یہی وہ لوگ ہیں جوآگے چل کر  تاریخ کا عنوان بنتے ہیں ،جن کے صبر سے قومیں بیدار ہوتی ہیں اور جن کی کوششوں سے انسانی نسلیں فرعونوں سے آزادی حاصل کرتی ہیں۔ایسے لوگ ہر دور میں کٹتے اور مرتے تو رہے ہیں لیکن کبھی ان کے حوصلے میں کمی نہیں آئی۔

یہ بے گناہ کے خون میں تر بتر عمران اسلم چیمہ کا کردار نہیں بلکہ نون لیگ کا اصلی چہرہ ہے۔ یہ چہرہ قوم کے ہر مہذب اور باشعور شخص کو جھنجوڑ رہا ہے، یہ چہرہ ہمیں خوابِ غفلت سے بیدار کر رہا ہے ، یہ چہرہ ہم سب  سے پوچھ رہاہے کہ ہم آخر کب تک اپنی آئندہ نسلوں کو فرعونوں کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھیں گے۔

ذیشان اشرف بٹ اپنے سرخ لہو سے  ہمارے لئے یہ پیغام چھوڑ گیا ہے:

تجھے خبر نہیں شاید کہ ہم وہاں ہیں جہاں​

یہ فن نہیں اذیت ہے زندگی بھر کی​

یہاں گلوئے جنوں پر کمند پڑتی ہے​

یہاں قلم کی زباں پر ہے نوک خنجر کی​

(فراز)

تحریر۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے میڈیاسیل سے جاری بیان میں ایم ڈبلیوایم کے رہنما کامران علی ہزارہ نے کہاکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی جارحیت قابل مذمت ہے۔ پچھلے ستر سال سے بھارت نے ظلم و بربریت کا بازار گرم کر رکھا ہے، اب تک ہزاروں کشمیری بھائیوں کو دہشت گردی کی بھینٹ چڑھا کر شہید کر دیا گیا ہے۔ سینکڑوں خواتین کی بے حرمتی کی گئی، ہزاروں نوجوانوں کو تشدد کا نشانہ بنا کر عمر بھر کے لئے معذور کر دیا گیا، پھر بھی کشمیری بھائیوں کے حوصلے پست نہیں کئے جاسکتے۔ پوری کشمیروادی کو لہولہان کر دہا گیا بھارتی قابض افواج نے جس طرح کشمیر میں بیہمانہ اور ظالمانہ کاروائیاں کی ہیں اس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں سینکڑوں نوجوانوں کو بد ترین تشدد کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا۔ عالمی اداروں کی بھارتی مظالم پر خاموشی قابل افسوس ہے۔ مجلس وحدت مسلمین مشکل وقت میں کشمیریوں کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

انہوں نے مزید کہاکہ ہے کہ حق خود ارادیت کشمیریوں کا حق ہے۔ بھارت انسانیت سوز مظالم کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو ان کے حق سے دستبر دار نہیں کر سکتا۔ اس لئے اب وقت آگیا ہے کہ دُنیا کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق استصواب رائے کا حق دلوائے۔ پاکستان کے عوام کشمیریوں کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑے ہیں۔ ہم اس مشکل گھڑی میں کشمیری بھائیوں کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں۔

وحدت نیوز  (کراچی)  مجلس وحدت مسلمین کراچی کے رہنماعلامہ مبشر حسن کا کہنا ہے کہ اکیس ارب میں فروخت کی جانے والی کے الیکٹرک اب ساتھ ہراز پانچ سو ارب روپے منافع کما چکی ہے۔آخر کیوں معاشی حب کراچی کی ایک کروڑ سے زائد صافین عوام کو پورے ملک میں سب سے زیادہ مہنگی فی یونٹ قیمت پر بجلی دی جارہی ہے۔85فیصد سے زائد ریکوری والے علاقوں کو میں آخر کیوں اعلانیہ و غیر اعلانیہ بلا جواز لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے اورکے الیکٹرک اوور بلنگ کے نام پراربوں روپے سے بھتہ وصول کر چکی ہے،ان خیالات کا اظہار انہوں نےصوبائی سیکریٹریٹ میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، اس موقع پر احسن عباس رضوی،عارف رضازیدی ،علامہ علی انورجعفری،ناصرحسینی،میر تقی ظفر،عون علی ،ثمرزیدی ، علی عباس زیدی سمیت دیگر رہنما موجود تھے۔

 انہوں نے کہا کہ گزشتہ 9 سالوں سے کے الیکٹرک کا آڈٹ نہیں ہوا تانبا چور،اووربلنگ ،میٹر ٹیمپرنگ سمیت دیگر طریقوں سے شہر کی عوام کو لوٹ رہی ہے و فاقی و صوبائی حکومتیں جواب دیں کے ایک نجی پرائیویٹ کمپنی کو سرکاری پولیس اسٹیشن کیوں اور کس بنیاد پر دیا گیا ہے ۔ عوام کو بجلی کے بلوں پر دھمکیاں لکھنا پولیس اہلکاروں کے زریعہ حراساں کرنے کا سلسلہ بند کیا جائے۔کے الیکٹرک سندھ حکومت سے سستی بجلی کیوں نہیں خریدتی گیس سے بجلی تیار کرنے والی بد دیانت کے الیکٹرک انتظامیہ عوام کو لوٹنے کا سلسلہ بند کرے کے الیکٹرک کی نجکاری شہر قائد کی عوام کے ساتھ زیادتی ہے جس کی پر زور مذمت کرتے ہیں ۔

علامہ مبشر حسن کا کہنا تھا کہ پاکستان کی تاریخ میں آج تک کسی کمپنی نے ایک وقت میں ساڑھے پانچ ہزار ملازمین کو جبری طور پر نہیں نکالا۔ کے الیکٹرک انتظامیہ کی جانب سے نکالے جانے  والے ساڑھے پانچ ہراز ملازمین کے ساتھ ہیں شہر کی عوام کو مذید معاشی بدحالی اور بے روزگای کی طرف دھکیلا جارہا ہے انتظامیہ کے اس ظالمانہ اقدام کی مذمت کرتے ہیں ہم صدر مملکت ،وزیر اعظم پاکستان صوبائی وزیر اعلی سمیت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار ،آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ  سے مطالبہ کرتے ہیں کہ کے الیکٹرک کو فوری قومی تحویل میں لیا جائے۔ قومی احتساب ادارے نیب کے زریعہ ادارے میں موجود کرپٹ انتظامیہ کے خلاف فوری کاروائی کرے گزشتہ 9 سالوں سے کے الیکٹرک کا آڈٹ نہیں ہوا فوری آڈٹ کیا جائے اور ادارے میں موجود کرپٹ آفسران کے خلاف کاروائی کی جائے۔

انہوں نے مزید کہاکہ کے الیکٹرک گیس کمپنی کے اربوں روپے کے واجبات ادا کرے پیٹرول پر بجلی پیدا کرے۔ اوور بلنگ کے نام پر مذید بھتہ خوری بند کی جائے۔شہر قائد کو بلا تعطل بجلی فراہم کی جائے۔اس حوالے سے مجلس و حدت مسلمین نے کے الیکٹرک کے خلاف مرحلہ وار مہم کا آغاز کر دیا ہے اور پہلے مرحلہ کے الیکٹرک کے خلاف عوام کی آگاہی کیلئے تشہیری مہم کے حوالے سے شہر میں بینرز آویزہ کر دیئے گئے ہیں۔دوسرے مرحلے میں شہر قائد کے مختلف اضلاع میں کے الیکٹرک انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا جائے کا اور شہر بھر میں بلا وجہ لوڈشیڈنگ اور اووربلنگ سمیت دیگر شکایات کے حوالے سے احتجاجی کیمپ لگائے جائیں کے جس میں عوام اپنی شکایات درج کر وا سکیں گے۔شہر کی عوام کوظالمانہ اقدامات پر قانونی تحفظ فراہم کرنے کیلئے عدلیہ میں بھی جایا جائے گا۔

وحدت نیوز  (جیکب آباد)  مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصودعلی ڈومکی نے کہا ہے کہ اسرائیل سے محبت اور دوستی کا ہاتھ ملاکرکر بن سلمان نے آزادی فلسطین کی تحریک سے غداری کی ہے اور آل سعود کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کیا ہے، اب امت مسلمہ پر یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ آل سعود سے حرمین شریفین کو شدید خطرہ ہے۔ امریکہ اور عالمی سامراج کی خوشنودی آل سعود کے لئے خدا و رسول ﷺ کی خوشنودی پر مقدم ہے۔ امریکہ برطانیہ اور شیاطین عالم کو خوش کرنے کے لئے وہابیت کو فروغ دینے کا بیان آل سعود کا اقبال جرم ہے۔ ہر گذرتے دن کے ساتھ حق اپنی صداقت کے ساتھ آشکار ہوتا جارہا ہے جبکہ باطل اور اس کا مکروہ چہرہ ہر روز پہلے سے زیادہ بے نقاب ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں تسلسل کے ساتھ شیعیان علی ؑ اور ہزارہ مومنین کا قتل تشویشناک ہے۔ حکومت کے بلند وبالا دعووں کے باوجود بلوچستان سے لشکر جھنگوی اور داعش کے تربیتی مراکز کو ختم نہیں کیا جارہا۔ ملت جعفریہ کو وطن عزیز پاکستان سے محبت کی سزا دی جارہی ہے۔ ڈیرہ اسماعیل خان اور کوئٹہ کے مومنین اکیلے نہیں ہیں ،پوری قوم ان کے درد کو محسوس کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ امت مسلمہ اور ملت جعفریہ کے خلاف ملکی اور عالمی سطح پر جو سازشیں تیار کی گئی ہیں، ان کا مقابلہ بصیرت، شعور، صبر و استقامت اور جہد مسلسل ہی سے ممکن ہے۔ پاکستان میں بسنے والے چھ کروڑ شیعہ اپنی الٰہی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لئے میدان عمل میں آجائیں۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کا تین روزہ مرکزی تنظیمی سالانہ کنونشن کا آغازآج 6اپریل سے جامع الصادق جی نائن اسلام آباد میں ہو رہا ہے۔کنونشن میں شرکت کے لیے بلوچستان،سندھ،گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر سمیت پاکستان کے مختلف شہروں سے رہنماؤں اور تنظیمی کارکنوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔کنونشن میں صوبائی و ضلعی رہنماؤں کی جانب سے اپنے اپنے علاقوں کی تنظیمی کارکردگی پر رپورٹس پیش کی جائیں گی۔8اپریل کنونشن کے آخر سیشن پر بعنوان وحد ت اسلامی اور استحکام پاکستان سیمینار کا انعقاد کیا جائے گا ،سیمینارمیں ملک کے نامور شیعہ سنی علما اورسیاسی اکابرین شریک ہوں گے اور عصر حاضر میں امت مسلمہ کے مابین وحدت و اخوت کی ضرورت اور پاکستان کے استحکام پر گفتگو کی جائے گی۔کنونشن کے اختتام پر پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندوں سے خطاب بھی کیا جائے گا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) سوشل میڈیا کی اہمیت اور معاشرے پر اس کے کردار سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہ بات بھی نئی نہیں رہی کہ دنیا بھر میں خاص کر نئی نسل اسی سوشل میڈیا کے توسط سے بہت اہم امور بھی انجام دیتے ہیں اور بہت ہی قبیح ترین کام بھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیا کچھ ہورہا ہے، عام طور پر ان کی خبریں ہمارے ہاں بہت کم پہنچتی ہے۔ اور جو کچھ پہنچتی ہے وہ بھی سوشل میڈیا کے ہی طفیل۔ جبکہ زبان و بیان کی مشکلات اور دلچسپیوں کی تفریق کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا ذرایع کی اپنی پالیسیوں کے تحت دنیا میں سوشل سرکلز بھی ملکوں، معاشروں، مذاہب، اور زبانوں کے حساب سے ہی ایک دوسرے علاقے، زبان، معاشرہ اور ملک کے باسی تک پہنچ پاتا ہے۔ مثلا پاکستانی اردو اور انگریزی میں آئے پوسٹ تو دیکھتے ہی رہتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عربی، چائنیز،یا ہندی زبانون میں پبلک فورمز میں کئے پوسٹ بھی بار بار آپ کے سامنے آتا رہے۔ زمانے کا تقاضا ہے کہ ہم ان جدید ذرائع کو بہتر انداز میں اور مثبت کاموں کیلئے استعمال کرنا سیکھیں اور اپنی نسلوں کو سکھائے۔ لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم مثبت کم جبکہ منفی سرگرمیوں کیلئے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے سکول اور کالج کے طلباٗ خاص طور پر متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس زمانے کو ثقافتی یلغار کا زمانہ بھی شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے باقاعدہ جنگ سے کترانے لگے ہیں اور سمجھ لیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن کی جنگوں سے کسی کی جیت نہیں ہوئی۔ چین جیسا اقتصادی سپر پاور اس حقیقت کو پہلے ہی درک کر چکا تھا۔ اب زمانہ سوشل جنگوں کا ہے اور ہمارے سامنے عرب سپرنگ، ویلویٹ ریوولیوشن، اور دیگر مثالیں موجود ہیں کہ سوشل میڈیا پر اب مختلف معاشرے باقاعدہ جنگیں لڑ رہی ہیں

چائینہ مجبور ہے کہ وہ اپنی معاشیت اور ثقافت کو بیرونی یلغار سے بچانے کیلئے مغربی سماجی ویب سائٹس پر پابندی لگادیں۔ یہی کچھ حال روس کا ہے۔ ایران سمیت دیگر کئی ممالک نے بھی بیرونی ممالک کی سماجی ویب سائٹس کو بند کردیئے، پاکستان میں بھی کافی عرصۃ فیس بک اور یوٹیوب بند رکھا گیا۔ حال ہی میں فیس بک پر الزام لگا کہ کڑوڑوں صارفین کا ڈیٹا امریکی انتخابات کے دوران ناجائز طریقے سے استعمال ہوئے، فیس بک کے بانی نے معذرت بھی کی اور اب امریکا اور برطانیہ میں ان کے خلاف کیسز بھی چل رہے ہیں۔ مسلمان ممالک خصوصا پاکستان کی اپنی کوئی سماجی ویب سائٹ تو ہے ہی نہیں، بیرونی دنیا کے ان اداروں اور سائٹس پر ہماری چلتی نہیں۔ پابندی ہم سے لگنی نہیں کیونکہ استعمال کئے بنا کسی نے رہنا نہیں۔ چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے۔ اور استعمال کرنیمیں کوئی قباحت اور مسئلہ بھی بظاہرنہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی چیز کی بہتات اچھی نہیں ہوتی۔ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں کوئی باقاعدہ گائیڈ لائن یا طریقہ کار نہ ہوں تو اسکے مضر اثرات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ہم شاید فی الحال اس چیز کو درک نہیں کرپائے، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے سامنے امریکا جیسی ترقی یافتہ ممالک بھی مجبور ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو یقینی بنانے کیلئے باقاعدہ سرکاری فنڈ ز میں سے بجٹ مختص کرے۔ ہر ریاست میں محکمہ تعلیم کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو یہ بھی سکھائے کہ ان کے بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کے آداب کیسے سکھائے جائیں۔کیوں؟ کیوں کہ ان کے تجربات ہوچکے ہیں ماں باپ گھر میں کتنا ہی خیال کیوں نہ رکھے، سکول میں کتنی اچھی تعلیمی نظام کیوں نہ ہو اگر طالبعلم کا حلقہ احباب،خصوصا آج کل کے زمانے میں سوشل نیٹ ورک اچھے نہ ہوں تو وہ کسی اور راہ لگ جانے میں دیر نہیں کرتا۔امریکہ اپنی نئی نسل کو سوشل میڈیا پر کس طرح کے کردار ادا کرنے اور سکھانے پر مجبور ہیں۔؟ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ایسا کرنے سے کیا کچھ فرق پڑیگا؟ اسطرح کے سوالات تفصیل طلب ہے۔

کچھ سالوں سے امریکی ریاستوں کی حکومتیں باقاعدہ کوشش کررہی ہیں کہ تعلیمی نظام کو بہتر ٹریک پر رکھنے کیلئے سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کو یقینی بنائی جائے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی شہر نیویارک حکومت کے محکمہ تعلیم نے ] طلبا کے سوشل میڈیا کے رہنمائی خطوط کے لیے والدین اور اہل خانہ کی رہنمائی[ کے نام سے باقاعدہ بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کیلئے الگ اور بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کیلئے الگ گائیڈ لائن وضع کئے اور ان کو دنیا کے مختلف زبانوں میں تحریرکرنے کے ساتھ ساتھ والدین کی رہنمائی کیلئے ویڈیوز اور دوسروں کے آرا تک شامل کرکے شایع کردیئے۔نیویارک سٹی گورئمنٹ اور سکولز کی مرکزی ویب سائٹ پر بھی ڈال دیئے۔]جسکا خلاصہ اس تحریر میں شامل ہیں[۔ اور شہر کے ہر سکول اور ہر سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو بھی ظاہر ہے پہنچا دی گئی ہیں تاکہ۔۔۔؟ سوال یہ ہے کیا یہ بات نیو یارک حکومت تک محدود ہے؟ کیا دوسری قومیں ہماری طرح ہیں؟ نہ سکولوں میں تعلیم کا بہتر نظام، نہ نئے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت؟ یقینا نہیں، چائینہ، یورپ، رشیا، اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا اتھکس کو اب ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بچوں اور بچوں کیوالدین کی تربیت کی جاتی ہے۔ انکو سوشل میڈیا کے آداب باقاعدہ پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں پاکستانی، خصوصا گلگت بلتستانی۔ مسلمان ہیں۔ سماجی و دینی اقدار ہیں۔ بہت ساری ذمہداریاں ہیں سب پر۔ سرکاری پالیسیوں کو تورکھیں اپنی جگہ وہ تو دو انچ تارکول سڑک پر چڑھا کے احسان عوام پر ڈالتے ہیں۔ لیکن والدین؟ اکثریت خود ٹیکنالوجی سے واقف نہ تعلیم اتنی کہ دنیائی حوادث سے آشنائی ہو۔ اور ان حوادث کیلئے اپنے بچوں کی کوئی رہنمائی کرسکیں۔ نتیجتا، بچے اپنی راہ خود چنتے نکلتے جاتے ہیں، اچھے کو برا سمجھے، یا کچھ برے لوگ برائی کو ہی اچھا بنا کر انکو سمجھائے، بچارے والدین کو تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ جب سالہا سال شہروں میں رہنے کے بعد اور بعض تو اپنے ہی گھر میں ہی رہتے ہوئے کسی اور سوچ کا مالک بن چکنے اور والدین، اخلاق، اطوار، روایات، سب کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونے تک بے خبر رہتے ہیں۔ باتیں لمبی ہوجارہی ہے۔ مختصرا۔سوشل میڈیا کے بارے میں اپنے بچوں کی رہنمائی پر توجہ دیں۔۔ اگر والدین اور گھر کے بڑے نہیں دینگے تو کل کو پچھتائیں گے۔اس کیلئے کم از کم شیطان بزرگ امریکہ کی طرفسے اپنے شہریوں کیلئے پیش شدہ رہنمائی (اردوزبان میں تحریر لنک مضمون کے آخر میں ) کا ہی ایک بار مطالعہ کر لیں۔۔۔

خلاصتا چند اہم نکات درج ذیل ہیں:

۱۔ شہ سرخی مشق: اگر آپ کا بچہ ایک اخبار کے مضمون کا عنوان ہوتا تو یہ اس مضمون کے ساتھ کیسی شہ سرخی دیکھنا چاہیگی؟ شہ سرخی کو تحریر کریں۔ دوستوں، اہل خانہ اور مشہور افراد کی شہ سرخیاں کیسی ہو سکتی ہیں۔ آپ کی اور آپ کے بچے کی موجودہ آن لائن جگہوں پر موجود تصاویر اور پوسٹس کی نوعیت کا جائزہ لیں۔ کیا یہ آپ دونوں کے پسندیدہ عنوان سے میل کھاتی ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا مستقبل کی پوسٹس ایسی ہونی چاہئیں؟ ۲۔ بچے کو پتہ ہونا ضروری ہے کہ آپ کے بچے کے پوسٹ سے انکے اساتذہ، دوست، رشتے دار کیا تاثر لیتے ہیں؟یعنی اسکی شخصیت اور سوچ کیسی ہے۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں۔اپنے بچے کو بتائیں کہ اپنا پتہ، تاریخ پیدائش، یا دیگر ذاتی معلومات کو پوسٹ کرنا کیوں غیر محفوظ ہے اور شناخت کی چوری (آئی ڈینٹٹی تھیفٹ) کا کیا مطلب ہے۔ ۳۔ تعارف، پس منظر کس طرح سے لکھ کر پیش کرتے اور کیسی تصاویر شیر کرتا ہے؟ عام لوگوں کو ان سے کیا تاثر مل رہا ہے؟ ۴۔ بچے کو جاننا لازمی ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کریں - اپنے سامعین کو ذہن میں رکھیں، اس کیلئے والدین کا اپنے بچے کیساتھ ایک مشترکہ اکاونٹ بنانا، پرائیوسی کا خیال، دوستیاں وغیرہ مل کرنا، بات چیت جاننے والوں سے ہی کرنا،۔۔ جو چیز پوسٹ کی جارہی ہیں اسکی ضرورت، اہمیت، افادیت سے واقف کاری بہت اہم ہے۔ ۵۔ اپنے آن لائن سرگرمیوں کے نتائج کے بارے میں سوچیں اور یہ جانیں کہ یہ کس کو بطور دوست، یا فالو کرنے والا وغیرہ شامل کررہے ہیں۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں، معلومات کو راز رکھیں، سکول سے ملنے والی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر مبنی رپورٹ پر غور کریں، بچے کے اکاونٹ کو خود فالو کریں، دوست بنائے رکھیں اور انکی رہنمائی کرتے رہیں۔ ۶۔ سائبر غندہ گردی کی دھمکیوں کو سنیجیدہ لیں۔ پنے بچے کے اسکول کے دوستوں اور ان کے ساتھ ملکر کرنے والی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، گھر پر طرز عمل سے آگاہ رہیں، اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کے بچہ کیساتھ کوئی غندہ گردی کر رہا ہے تو صورت حال کو سمجھنا اہم ہے۔ ۷۔ اپنے بچے کی آن لائن برادریوں میں مثبت رہنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ایسے دیگر افراد کی نشان دہی کریں جو مثبت انداز میں شرکت کرتے ہیں۔ ۸۔ اس بات پر دھیان دیں آپ کے بچے کا رویہ ایک دم کیوں تبدیل ہو جاتا ہے۔ روزہ مرہ کی سرگرمیوں سے خارج ہونا، آن الئن اور ٹیکسٹ کرتے وقت غصہ کرنا، جب کسی بالغ کی آمد ہو تو جلدی سے اپلیکشنز کو بند کرنا، یا اس بارے میں بات چیت کرنے سے اجتناب کرنا کہ یہ کمپیوٹر پر کیا کر رہے ہیں۔ ۹۔ حالات حاضرہ کو استعمال کریں۔ خبروں میں واقعات اور دوستوں اور اہل خانہ کی صورت حال ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کرنے کے بارے میں بات چیت کرنے کے عمدہ مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ''ہمیں یہ جاننے کی ضرورت کیوں ہے؟'' جیسے سوال کا تیار جواب فراہم کرتا ہے۔

 

تحریر: شریف ولی کھرمنگی( بیجنگ)

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree