وحدت نیوز (گلگت) گلگت سے تعلق رکھنے والے نوجوان نوید حسین کو 10 جنوری کی صبح اڈیالہ جیل راولپنڈی میں انسداد دہشتگردی جی بی کی عدالت کے جج جمشید کے قتل کے الزام میں پھانسی دی گئی تھی۔ نوید حسین پر الزام عائد تھا کہ انہوں نے دوران حراست جیل سے نکل کر مذکورہ جج کو قتل کے دوبارہ جیل میں پناہ لی ہے۔ نوید حسین کو اسی منفرد اور ناکردہ جرم کی پاداش میں تختہ دار پر لٹکایا گیا تھا۔ اس کیس پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے ترجمان الیاس صدیقی نے اپنے ردعمل میں اس قتل کی مذمت کی تھی اور دعویٰ کیا تھا کہ انہیں پھانسی دینے کے لئے عدالتی تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ انہوں نے موقف اپنایا تھا کہ دنیا کی تاریخ میں یہ ایک انوکھی مثال رقم کی گئی کہ ایک قیدی جو قتل کے وقوعہ کے دوران جیل میں ہے اور پولیس تفتیش میں اس قیدی کو مجرم ٹھہرایا جاتا ہے۔ یہ کیسی عدالتیں ہیں، جو ایک قیدی پر ایک ایسے قتل میں مجرم قرار دیکر پھانسی کی سزا سنا دیتی ہیں جبکہ وقوعہ کے دوران قاتل جیل میں ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا تھا کہ گورننس آرڈر 2009ء کے تحت جی بی کے عوام کو وزیراعظم سے اپیل کا حق دیا گیا ہے اور اس قانون کو اڈیالہ جیل کے حکام کے نوٹس میں لانے کے باوجود نوید حسین کو اس حق سے محروم رکھ کر مجرمانہ غفلت کے مرتکب ہوئے ہیں۔ جیل حکام کے اس مجرمانہ غفلت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کی جائیگی۔
الیاس صدیقی کے مذکورہ بیان پر انسداد دہشتگردی عدالت جی بی کے جج راجہ شہباز خان نے انکے خلاف عدالتی نوٹس جاری کر دیا۔ عدالت نے اپنے نوٹس میں کہا کہ الیاس صدیقی نے اخبارات میں عدالت کے نازیبا اور تحقیر آمیز جملے استعمال کر کے معزز عدالت کی توہین کی ہے اور سیکشن 37 بی انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997ء کے تحت قانونی کارروائی کا مجاز عدالت کو ہے۔ عدالت مذکورہ سیکشن کے تحت جواب طلب کرتی ہے اور 17 جنوری کو عدالت عالیہ میں وضاحت طلب کرتی ہے۔ واضح رہے کہ جی بی کی معزز عدالت کی جانب سے یہ پہلا کیس تھا جس پر ٹرائل کرنے کے بعد ملزم کو پھانسی دی گئی، جبکہ شہید ضیاءالدین رضوی کے قاتلوں کی پھانسی تاحال نہیں ہو سکی ہے۔ انسداد دہشتگردی کی عدالت میں خطے کی تاریخ کے سنگین دہشتگردی کے واقعات بھی ایک طویل عرصے سے زیر سماعت ہیں۔ ان اندوہناک واقعات میں سانحہ چلاس، سانحہ کوہستان، سانحہ بابوسر اور سانحہ نانگا پربت شامل ہے۔ شاہراہ قراقرم پر شناختی کارڈ دیکھ کر قتل کرنے والوں کی ویڈیوز منظر عام پر آنے کے باوجود انکے جرائم تاحال عدالتوں میں ثابت نہیں ہو سکے ہیں۔ انہیں عدالتوں میں نوید حسین کا الزام ثابت بھی ہو جاتا ہے اور پھانسی کی سزا بھی سنانے کیساتھ اپیل کا حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ اور اگر کوئی عدالت عالیہ کے ان اقدامات کی مذمت کرے تو توہین عدالت کا کیس بنایا جاتا ہے۔ دوسری جانب گلگت بلتستان میں انسداد دہشتگردی کی عدالت کا قیام جی بی کی موجودہ آئینی حیثیت کے مطابق قانونی ہے یا نہیں سپریم کورٹ آف پاکستان فیصلہ دے چکی ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ سمیت دیگر عدالتوں کے فیصلے جی بی میں غیر آئینی اور غیر قانونی عمل ہے۔ اس فیصلے کی روشنی میں سپریم کورٹ آف پاکستان بھی انسداد دہشتگردی عدالت جی بی کی توہین کی مرتکب ہے۔