ایم ڈبلیو ایم نے حالیہ انتخابات میں شیعہ سنی اتحاد کو بنیاد بنا کر عملی وحدت کا مظاہرہ کیا، علامہ شفقت شیرازی

21 June 2013

shafqat sherazi qomوحدت نیوز (قم) ہمارا دشمن عالمی سطح پر ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت مقاومت کی لہر کو دبانے کی کوشش میں لگا ہوا ہے، ہمیں آپس میں الجھائے رکھنا بھی اسی عالمی سازش کا ایک حصہ ہے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے شیعہ سنی اتحاد کو بنیاد قرار دیتے ہوئے سنی تحریک اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ کے ساتھ سیاسی الائنس کرکے تکفیریوں اور ان کی سرپرستی کرنے والوں کو دیوار سے لگا کر عملی وحدت کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام والمسلمین سید شفقت حسین شیرازی نے ایم ڈبلیو ایم قم المقدسہ کی جانب سے منعقدہ ایک عظیم الشان سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے عالمی سطح پر استکباری سازشوں اور خاص طور پر شام کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک خاص اور خطرناک تفکر کو اسلام نما مسلمانوں کے درمیان پھیلانے کی عالمی سطح پر کوشش کی جا رہی ہے کہ لوگ خولی اور شمر بننے پر فخر محسوس کریں۔
 
علامہ سید شفقت شیراری نے مزید کہا کہ اگر ہم بیداری، استقامت اور بصیرت سے کام نہ لیں تو پاکستان کی صورتحال بھی شام جیسی ہوسکتی ہے، کیونکہ پاکستان وه ملک ہے جهاں سے دہشتگردوں کو ٹریننگ دے کر دوسرے ممالک بھیجا جاتا ہے۔ انہوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی سیاسی پالیسی اور حالیہ انتخابات میں شرکت کو ملت تشیع کی شناخت اور عظمت دست رفتہ کے حصول کے لئے پیش خیمہ قرار دیتے ہوئے واضح کیا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے سیاسی میدان میں قدم رکھنے کو شرعی وظیفہ جانا اور صبر و استقامت اور بصیرت کے ساتھ شجاعانہ طور پر تکفیریوں، استکباری غلاموں اور وڈیروں کا مقابلہ کیا اور ایک ایسی فکر اور اقدار کو پاکستانی معاشرے میں متعارف کرایا جو سیاسی عمل میں وارد ہوئے بغیر ممکن نهیں تھا۔
 
ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے پاکستان کی سیاست میں دیوبندی اقلیتی مسلك كے اندر تکفیری گروپ کے مسلکی بنیاد پر مضبوط اور بھیانک سیاسی کردار کی طرف اشاره کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی شیعہ جو کہ پاکستان کی دوسری بڑی آبادی ہیں ایک مضبوط، مستقل اور مستحکم پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لئے کلیدی کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہ کام سیاسی عمل میں وارد ہوئے بغیر امکان پذیر نہیں ہے۔ انهوں نے پاکستانی اہل تشیع کے درمیان پائے جانے والے ایک خاص سیاسی طرز تفکر کی بھرپور انداز میں نفی کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستانی شیعہ کسی کی ذاتی ملکیت نهيں اور اتنے کمزور نهیں ہیں کہ انہیں ہمیشہ دوسری سیاسی جماعتوں کے سہارے کی ضرورت پیش آئے اور ایک بچے کی طرح انگلی پکڑ کر چلنا ان کے مقدر کا حصہ بن جائے۔

انهوں نے ساتھ ہی ساتھ اس بات کی طرف بھی اشاره کیا کہ اگر تحریک جعفریہ نے مستقل سیاسی عمل کے سلسلے کو جاری رکھا ہوتا تو آج ملت تشیع کی یہ صورتحال نہ ہوتی، گرچہ انہوں نے صرف ہزاروں کی تعداد میں ووٹ لیا تھا جو کہ ایک فطری اور حوصلہ افزا عمل تھا، لیکن انهوں نے ایک مرتبہ انتخابات میں استقلال کا مظاہرہ کرنے کے بعد پھر سے وابسگی والی پالیسی کو اپنایا اور کبھی نون لیگ اور کبھی پیپلز پارٹی کے ساتھ الحاق کو غنیمت سمجھا۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے تحریک انصاف کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان نے جب پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا تو اسے پورے پاکستان سے ایک سیٹ بھی نہیں ملی، دوسری مرتبہ اسے صرف ایک سیٹ ملی، تیسری دفعہ اس نے الیکشن کے بائیکاٹ کا اعلان کیا، لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اور حالیہ الیکشن میں ووٹ کے لحاظ سے دوسری بڑی پارٹی اور سیٹوں کے حصول کے حوالے سے تیسری بڑی پارٹی کی شکل میں ابھر کر سامنے آئی۔

انکا کہنا تھا کہ سیاسی عمل میں ایک طویل جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے، اگر مجلس وحدت مسلمین پاکستان بھی کسی سیاسی پارٹی کی اتحادی بن جاتی تو مزید پانچ سال انتظار کرنا پڑتا اور پھر صفر سے سفر کا آغاز کرنا پڑتا۔ سیاسی جدوجہد ایک ایسا عمل ہے جس کی پیچیدگی کا اندازہ اسی وقت ہوگا جب آپ اس میدان میں سفر کا آغاز کریں گے۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے شیعہ سنی اتحاد کو بنیاد قرار دیتے ہوئے سنی تحریک اور جمعیت علمائے پاکستان نورانی گروپ کے ساتھ سیاسی الائنس کرکے لاکھوں کی تعداد میں ووٹ لے کر عملی طور پر تکفیریوں کو دیوار سے لگا کر عملی وحدت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے ساتھ اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ وحدت کا داعی وہی ہوتا ہے جو کسی پر کفر اور شرك کے فتوے نہ لگائے۔ انہوں نے ملت تشیع کے مفادات کو اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ مجلس وحدت مسلمین نے اپنے آپ کو محدود نہیں کیا اور ملت کے وسیع تر مفادات کی خاطر کسی پینل کی نہیں بلکہ معتدل نامزد امیدواروں کے ساتھ سیاسی الائنس اور ان کی بھرپور حمایت کرکے 50 کے قریب افراد کو اسمبلیوں تک پہنچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔

مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما نے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ ایم ڈبلیو ایم نے لاکھوں کی تعداد میں جو ووٹ لئے، گرچہ الیکشن کمیشن نے عدد کو گرا کر بیان کیا ہے، ان کا تعلق صرف ان جگہوں سے ہے جہاں کوئی شیعہ آزاد یا کسی پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن نہیں لڑ رہا تھا اور مجلس وحدت نے مستقل طور پر اپنے امیداوار کو نامزد کیا تھا، لیکن جہاں کوئی شیعہ کسی پارٹی کے ٹکٹ پر یا آزاد الیکشن لڑ رہا تھا وہاں مجلس وحدت مسلمین پاکستان نے تشیع کے اندر وحدت کو حفظ کرتے ہوئے ان کی حمایت کا اعلان کیا اور ان کی کامیابی کے لئے الیکشن کمپین چلائی اور انہیں کامیاب کروا کر اسمبلیوں میں بھیج دیا۔ اس طرح شیعہ اکثریتی علاقوں میں تو مجلس وحدت مسلمین نے اپنا امیدور کھڑا ہی نہیں کیا تھا۔ مجلس وحدت مسلمین نے ہر شیعہ امیدوار چاہے جس کا تعلق جس پارٹی سے بھی تھا، معتدل سنیوں، تکفیریوں کے مقابلے میں کھڑے امیدواروں اور بعض حلقوں میں جہاں کوئی شیعہ کھڑا نہیں تھا، اپنے مستقل امیدوار کھڑے کرکے ظلم و بربریت، لاقانونیت، دہشتگردی اور مستضعفین کے حقوق کی دفاع کے لئے الہی اور انسانی اقدار کی حامل سیاست کا آغاز کر دیا ہے اور دسیوں افراد کو کامیاب بنا کر اسمبلیوں میں مظلوموں کی آواز بنا کر بھیجنے میں بھرپور کامیاب ہوئی ہے۔

انہوں نے بعض نادان دوستوں کی طرف سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے خلاف شوشل میڈیا میں وسیع پیمانے پر کیے گئے پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا دشمن عالمی سطح پر ہمیں دیوار سے لگانے کی بھرپور کوشش میں لگا ہوا ہے، دشمن کی یہی کوشش ہے کہ ہم داخلی اختلاف اور انتشار کا شکار رہیں اور چھوٹے چھوٹے مسائل میں الجھے رہیں، لیکن ہم نے سب سے پہلے ضابطہ اخلاق پر دستخط اور عملی طور پر اس کے مفاد پر عمل کرکے دشمن کی اس گھناونی سازش کو ناکام بنا دیا، لیکن ہمارے بعض دوستوں نے نہ صرف اس ضابطہ اخلاق پر عمل نہیں کیا بلکہ عملی طور پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے نامزد امیدواروں کے خلاف ہر طرح کے اوچھے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ pp.82 جھنگ میں ایک شیعہ عالم دین کے مقابلے میں ایک ایسے بندے کی حمایت کا اعلان کیا گیا جس کی سپاہ صحابہ نے بھی حمایت کا اعلان کیا تھا اور اسی طرح کی صورتحال pp.78 جھنگ میں اختر شیرازی کے ساتھ تھی، جو کہ ایک آزاد شیعہ امیدوار تھا اور ملت تشیع کے وقار اور عظمت کی جنگ لڑ رہا تھا اور تشیع کے دلوں سے خوف و ہراس کو دور کرنے کے لئے کمر ہمت باندھ کر میدان مین اترا تھا، جس کا گناہ یہ تھا کہ مجلس وحدت مسلمین نے اس کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔

علامہ سید شفقت شیرازی نے کہا کہ یہ دوست جھنگ کی صوبائی سیٹ میں سپاہ صحابہ سے تعلق رکھنے والی شیخ یعقوب کی اہلیہ (بقول و اعتراف مولانا مظهر علوی اسكا اور اسکے خاندان كا تعلق سپاه صحابہ سے ہے) کو کامیاب بنانے کے لئے دن رات ایک کر رہے تھے، جبکہ جھنگ کی حساس قومی اسمبلی کی سیٹ کے لئے یہ دوست فکر مند نہیں تھے، جہاں تکفیری ٹولے کا شیخ محمد اکرم مقابلہ کر رہے تھے، جو تھوڑے سے فرق کے ساتھ تکفیری گروپ کو ہرانے میں کامیاب ہوا۔ یہ دوست احباب قومی بینک کے ڈفالٹر اور اہل تشیع کے امام بارگاہوں پر قاتلانہ حملہ کرنے والے شیخ یعقوب (تکفیریون کا سابق ایم پی ای) کی گاڑیوں میں تو دن رات سوار نظر آتے تھے، لیکن شیخ محمد اکرم کو کامیاب بنانے کے لئے ان کی گاڑیوں میں سوار ہوکر کمپین کرتے کہیں نظر نہیں آئے۔ قومی اسمبلی، جہاں پالیسیز اور قوانین پاس ہوتے ہیں، جس کی حساسیت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، اس حساس مرحلے میں ان دوستوں کو حساسیت دکھاتے ہوئے قوم و ملت نے کہیں نہیں دیکھا۔ جبکہ مجلس وحدت مسلمین نے شیخ محمد اکرم کو کامیاب بنانے کے لئے اهم كردار ادا کیا، ان کے لئے پریس کانفرنس کی اور ان کی کامیابی کو حتمی شکل دی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح کی وضعیت بعض دیگر حلقوں میں بھی تھی، جہاں ہمارے یہ دوست مجلس وحدت مسلمین کے نامزد شیعہ امیدواروں کے مقابلے میں فضل الرحمن گروپ کی حمایت کر رہے تھے، جو عملی طور پر تکفیریوں کی سرپرستی کر رہا ہے، جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ اگرچہ ممکن ہے کہ اس کی سیاسی زبان کچھ اور ہو۔ انہوں نے حوزہ علمیہ قم میں مجلس وحدت مسلمین کے خلاف پھیلائے گئی افواہوں اور حقایق کو توڑ مڑوڑ کر پیش کرنے اور واضح اور روشن حقایق کے انکار کو خلاف شان طلبگی قرار دیتے ہوئے حوزہ علمیہ قم کے طلاب کو حق بینی اور حق شناسی کی طرف دعوت دی۔ ساتھ ہی انہوں نے حوزہ علمیہ قم کے طلاب کا پاکستان کے حالیہ انتخابات میں ملت تشیع کے سیاسی مورال کو بلند کرنے اور لوگوں میں سیاسی شعور بیدار کرکے انہیں صحیح معنوں میں سیاسی، مذہبی اور اجتماعی رہنمائی کرنے پر شکریہ ادا کیا اور پاکستان میں ان کی بھرپور فعالیت کو سراہا۔

ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل نے ساتھ ہی ساتھ اس بات کا ذکر کرتے ہوئے کہ پاکستانی قوم ایک آزاد قوم ہے، وہ کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہے، وہ آزادانہ ہر قسم کی فعالیت کرسکتی ہے، اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا کہ بعض لوگوں کا یہ کہنا کہ اگر ہم نہیں چاہتے تو یہ لوگ پاکستان میں کچھ بھی نہیں کرسکتے تھے، کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ پاکستان میں ہر گروہ آزاد ہے، کوئی کسی کا غلام نہیں ہے، وہ اپنی بہتر تشخیص کی بنیاد پر پاکستان کے سیاسی، سماجی، اجتماعی، ثقافتی اور دینی مسائل میں ایک دوسرے کو حذف کئے بغیر اخلاقی حدومرز کی رعایت کرتے ہوئے موثر رول پلے کرنے کا پورا پورا حق رکھتا ہے اور اس حق کو کوئی کسی سے نہیں چھین سکتا۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں چاہیے کہ ہم ایک دوسرے کے دست و بازو بنیں اور ایک دوسرے کو برداشت کریں۔ قوم بھی اسی پر اعتماد کرے گی جو اس کے دکھ درد اور مشکلات میں شریک ہوگا۔
 
اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کے نومنتخب سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام والمسلمین شیخ غلام محمد فخرالدین نے خطاب کرتے ہوئے قم کے علمائے کرام کو وحدت کلمہ حفظ کرتے ہوئے مل کر قوم و ملت کی خدمت کرنے کی طرف دعوت دی۔ انہوں نے مزید کہا کہ مجلس وحدت مسلمین کا دفتر ہر پاکستانی کے لئے کھلا ہے، جس میں ہر پاکستانی طالب علم بھرپور انداز میں اپنا علمی، ثقافتی، اجتماعی، تبلیغی اور سیاسی رول پلے کرسکتا ہے۔



اپنی رائے دیں



مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree