وحدت نیوز (سندھ) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کے اعلان پر درگاہ لال شہباز قلندر ،پارا چنار، لاہور، پشاور میں ہونے والے خود کش حملوں اور ایم ڈبلیو ایم آزادکشمیر کے سیکرٹری جنرل علامہ تصور جوادی پر قاتلانہ حملے کے خلاف ایم ڈبلیو ایم کے زیر اہتمام جمعہ کے روز ملک بھر میں ’’یوم احتجاج‘‘ منایا گیا۔اس سلسلے میں کراچی، سمیت سندھ بھر کے تمام چھوٹے بڑے شہروں حیدرآباد، نوابشاہ، بدین، سجاول، ٹنڈومحمد خان، مٹیاری، دولت پور،خیر پور، سکھر،گھوٹکی،شہدادکوٹ، قنبر،سانگڑھ،جیکب آباد ،شکارپور، میرپور خاص، لاڑکانہ،عمرکوٹ،کندھ کوٹ کی تمام تحصیلوں اور تعلقہ جات میں احتجاجی مظہرے کیئے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں ، جن میں مرکزی، صوبائی اور ضلعی رہنماؤں کے علاوہ بڑی تعداد میں تنظیمی کارکنان اور شیعہ سنی افراد نے شرکت کی۔ شرکا نے بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے، جن پر کالعدم جماعتوں کے خلاف فوجی آپریشن اور سہولت کاروں کے خلاف بھرپور کاروائی کے مطالبات درج تھے۔ ایم ڈبلیو ایم کی جانب سے اندرون سندھ پُرامن ہڑتال بھی کی گئی، جبکہ کراچی میں مرکزی احتجاجی مظاہرہ جامع مسجد نور ایمان ناظم آباد میں کیا گیا، جبکہ حسینی جامع مسجد برف خانہ ملیر، جامع مسجد حسن مجتبیٰ گلشن معمار، جامع مسجد جعفریہ نیو کراچی و دیگر جامع مساجد کے باہر بھی احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے رہنماؤں علامہ مختارامامی، علامہ مقصودڈومکی،علامہ دوست علی سعیدی، مولانا مرزا یوسف حسین، مولانا مبشر حسن، مولانا نشان حیدر، مولانا صادق جعفری، مولانا علی انور جعفری،مولانا احسان دانش، محمد علی شر،طارق بدوی،مولانا سجادمحسنی،مولانا نقی حیدر، مولانااختر طاہری،مولانا علی بخش سجادی،مولانا سیف علی ڈومکی،مولانا نادر شاہ، چوہدری اظہر، منور جعفری،شفقت لانگا،مولانا معشوق علی قمی، مولانا صفدر علی ،ناصر حسینی، آصف صفوی اور دیگر علمائے کرام و رہنماؤں نے کہا کہ دہشت گردی ملک و قوم کی سالمیت اور استحکام کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔پانچ دنوں میں دہشت گردی کے 9 واقعات قومی سلامتی کے ذمہ دار اداروں کی فعالیت پر سوالیہ نشان ہیں۔ قانو ن کی بالادستی،امن و امان کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے حکومتی دعوے شرمناک ہیں۔۔حکمرانوں کی سیاسی ضرورتیں کالعدم مذہبی جماعتوں کے خلاف کاروائی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔موجودہ حکمران اچھے اور بْرے طالبان کےنام پر دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتے آئے ہیں جن کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ شام سے فرار ہونے والے داعشی دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی گئی ہے تاکہ پاکستان میں کاروائیاں کرنے میں انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اسلام دشمن عالمی قوتیں داعش کو پاکستان میں دھکیل کر اپنا اگلا ہدف واحد اسلامی طاقت پاکستان کو بنانا چاہتے ہیں۔پوری حکومتی مشینری موجودہ حکومت کی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے۔ملک کی سالمیت و بقا سے انہیں کوئی غرض نہیں۔عالمی دہشت گرد تنظیم داعش سے فکری مطابقت رکھنے والے نام نہاد علما اور اداروں کے خلاف بھرپور کاروائی حالات کا اولین تقاضہ ہے۔اس میں غفلت کا مظاہرہ پاکستان دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں معاونت کے مترادف سمجھا جائے گا۔تکفیری فکر کے فروغ میں سرگرم ادارے دہشت گرد ساز نرسریاں ہیں۔وطن عزیز کی بقا و سالمیت ان اداروں کی بیخ کنی سے مشروط ہے۔دہشت گردوں سے لچک کا مظاہرہ ان عناصر کے حوصلوں کی تقویت کا باعث بنا ہواہے۔اس وقت ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔عوام میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کا خاتمہ حکومت کی سنجیدہ کوششوں کے بغیر ممکن نہیں۔عوامی طاقت کے بل بوتے پر اقتدار میں آنے والی حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کو تحفط فراہم کرے۔مقررین نے مطالبہ کیا کہ کالعدم مذہبی جماعتوں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے ان جماعتوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جو نام بدل کر اپنی مذموم سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔کالعدم جماعتوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھنے پر حکومتی و سیاسی شخصیات کو پابند کیا جائے۔پنجاب میں لشکر جھنگوی اور دیگر دہشت گروہوں کی کمین گاہوں کا تدارک کیا جائے۔نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کیا جائے۔محض کوائف فراہم نہ کرنے والے کرایہ داروں کی گرفتاری کو نیشنل ایکشن پلان کی کامیابی قرار دینا مضحکہ خیز ہے۔درگاہ شہباز قلندر، لاہور، پارہ چنار ،پشاور اور مظفرآباد میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ داران کی گرفتاری کے لیے خصوصی ٹیمیں تشکیل دی جائیں۔فوجی عدالتوں کی طرف سے دہشت گردوں کو دی جانے والی سزاؤں پر فوری عمل درآمد کیاجائے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دہشت گردی کے عفریت سے نکالنے کے لیے حکومت ، عسکری اداروں اورتمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو ایک ہی سمت میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔