Print this page

کیا پاکستان میں کسی ایک مکتب فکر کا غلبہ ممکن ہے؟

08 ستمبر 2020

وحدت نیوز(آرٹیکل) جب جنگ صفین میں قرآن مجید کو نیزوں پر بلند کیا گیا اور لاحُکْمَ إِلاَّ للهِِ کا نعرہ بلند کیا گیا تو امیر المؤمنين علی ابن ابی طالب علیہم السلام نے فتنے کی حقیقت کو عیاں کرتے ہوئے اور سادہ لوح مسلمانوں کو اس فتنے کا شکار ہونے سے بچانے کے لئے ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا جو بعد میں ضرب المثل بن گیا اور وہ تھا " کَلِمَةُ حَقٍّ یُرَادُ بِهَا بَاطِلٌ" یعنی یہ قرآن اور اللہ کے حکم کی بات ظاہری طور پر تو حق ہے لیکن ناصبی اور خارجی اسے اپنے باطل مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں. آج بھی پاکستان میں یہ اقلیت و اکثریت کا بیانیہ ظاہری طور پر ایک بڑے طبقے کے لئے جاذبیت رکھتا ہے لیکن اس کی حقیقت سے اگر پردہ اٹھایا جائے تو یہ ایک بڑے فتنے اور ملک میں نہ رکنے والی خانہ جنگی کی بنیاد بن سکتا ہے. اس لئے شیعہ سے زیادہ برادران اہل سنت اور ملک کے مقتدر اداروں سیاستدانوں اور حکمرانوں کو غور وفکر کرنے کی ضرورت ہے.

جب ہم سب شیعہ اور سنی اکٹھے ہوئے تو پاکستان بنا اور پاکستان کی بقاء و استحکام اور خوشحالی بھی اسلام کے انہیں دونوں بازوں (شیعہ و سنی) کی وحدت سے جڑی ہوئی ہے. اس لئے جو لوگ اکثریت واقلیت کے بیانیے کے ذریعے شیعہ کو دبانا اور کمزور کرنا چاہتے چاہتے ہیں وہ ملک میں نا ختم ہونے والے فتنے اور خانہ جنگی کا میدان سجانے پر تلے ہوئے ہیں.

جب تحریک پاکستان زوروں پر تھی اس وقت بھی سلفی و دیوبندی ماسوائے ایک محدود تعداد کے سب کے سب کانگرس کے ساتھی اور ایک آزاد و خود مختار ملک پاکستان بننے کے مخالف تھے. ماضی کی طرح آج بھی اگر اس سوچ کی حوصلہ شکنی نہ کی گئی اور اس فتنے کو جڑ سے نہ اکھاڑ پھینکا گیا اور مسلمانوں کے مابین باہمی وحدت کی بنیادیں مضبوط نہ کی گئیں تو نتائج بہت بھیانک نکلیں گے. اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ  ارباب اقتدار، امن وامان کے محافظین، مقتدر ادارے اور وطن کے بااثر طبقات (مذہبی ہوں یا سیاسی) سب کے سب اپنی اپنی ذمہ داری نبھا کر ملک کو مزید بحرانوں کا شکار ہونے سے بچائیں. سب کو جان لینا چاہیئے کہ 24 کروڑ آبادی کے پاکستان میں کم از کم شیعہ آبادی 25% ہے جو تقریبا 6 کروڑ افراد بنتے ہیں . امریکی وزارت دفاع (پینٹاگون) بھی سنہ 2000 سے پہلے تک اپنی سائٹ پر شیعہ آبادی 27% لکھتا رہا ہے اور دنیا میں ایران کے بعد سب سے زیادہ شیعہ مذہب کے لوگ پاکستان میں بستے ہیں.

یہ بات بھی درست ہے کہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی کی اکثریت اہل سنت برادران پر مشتمل ہے اور پاکستان کی بھی آبادی کا 71% اہل سنت برادران اور 4% غیر مسلم برادران ہیں. لیکن ہندوستان کی سرزمین پر جنم لینے والے مکتب دیو بند کی تعداد شیعہ مذہب کے پیروکاروں سے ہرگز زیادہ نہیں. گو گذشتہ چار دہائیوں کے معروضی حالات میں انکی غیر فطری افزائش اور تقویت کی گئی. اور ان میں بھی فقط ایک تکفیری طبقہ ہے جو اقلیت و اکثریت کے بیانیے کی ترویج کر رہا ہے. جو سب مسلمانوں کو ایک صف میں نہیں دیکھ سکتا اور پاکستانی عوام کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے. یہ تکفیری طبقہ انہیں شعوری و لاشعوری طور پر ریاست کی سرپرستی حاصل رہتی ہے. پاکستان کسی خاص مسلک یا مذہب کے لئے نہیں بنایا گیا تھا بلکہ اسلام اور قرآن کے نام پر بنا تھا. پاکستان کی بقاء بھی مسلکی پاکستان یا کسی ایک فرقے کے پاکستان سے نہیں بلکہ سب مسلمانوں کے مشترکہ پاکستان سے جڑی ہوئی ہے. آئین پاکستان بھی اسی امر کا عکاس ہے.

اب آخر میں سب پاکستانی عوام کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کے 6 کروڑ شیعہ کی تعداد ایک بہت بڑی اور مؤثر تعداد ہے. پاکستان میں بسنے والے شیعہ ماسوائے دنیا کے چند ایک بڑے ممالک کی آبادی کے باقی سب ممالک کی آبادی سے زیادہ ہیں اور اتنی بڑی آبادی کو نہ دبایا جا سکتا ہے اور نہ ہی کمزور کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی ختم کیا جا سکتا ہے. اگر دنیا بھر کے ممالک کی آبادیوں کا ملاحظہ کیا جائے تو :

1- براعظم ایشیا میں 51 ممالک ہیں۔ ان میں سے ۱۲ ممالک کےعلاوہ باقی سب ممالک کی الگ الگ آبادی سے شیعیان  پاکستان کی تعداد ان سے زیادہ ہے.

2- یورپی ممالک کی تعداد 48 ہے ان میں سے 4 ممالک کی آبادی کے علاوہ باقی سب ممالک کی الگ الگ آبادی سے پاکستانی شیعوں کی تعداد زیادہ ہے.

3- افریقی ممالک کی کل تعداد 56 ہے ان میں فقط 4 ایسے ممالک ہیں کہ جن کی آبادی پاکستان کے شیعوں کی تعداد سے زیادہ ہے.

4- براعظم امریکا کے ممالک کی تعداد 35 ہے. جن میں سے فقط 3 ممالک کی آبادی پاکستانی شیعوں کی تعداد سے زیادہ ہے.

5- عرب ممالک کی کل تعداد 21 ہے. ان میں سے ماسوائے ایک ملک مصر کے پاکستان میں شیعوں کی تعداد ہر ملک کی آبادی سے زیادہ ہے.

6- خلیجی تعاون کونسل ممالک 6 پر مشتمل ہے.  پاکستان میں شیعوں کی تعداد اگر ان سب ممالک کی کل تعداد کو جمع بھی کر لیا جائے تو ان سے زیادہ ہے.

یہ اعداد و شمار یہاں بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد دنیا کے درجنوں ممالک کی مجموعی آبادی سے زیادہ ہے جنہیں فزیکلی ختم کرنا ناممکن ہے اسی طرح اتنی بڑی تعداد کو سیاسی معاشی اور فکری طور پر دیوار کے ساتھ لگانا نیز جہاں انسانی حقوق اور بین الاقوامی قوانین و ضوابط کے خلاف ہے وہیں عملا ناممکن بھی ہے۔ ملک کی پچیس فیصد آبادی پرکسی خاص مکتب فکر کےعقائد بھی مسلط نہیں کئے جاسکتے لہذا پاکستان کے مقتدر حلقوں اور مخلص لوگوں کو یہ ملک میں مکتبی اختلافات کے باوجود مشترکہ زندگی کا راستہ تلاش کرنا اور  معاشرے کو اسی پر چلانے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر مقتدر ادارے یا فرد یا گروہ کے ذہن میں یہ ہو کہ شیعوں کو فکری معاشی یا فزیکلی دیوار کے ساتھ لگایا جاسکتا ہے یا کوئی اندرونی گروہ دشمنان وطن کی طرف سے اس پر مامور ہو تو اسے شیعہ کی تاریخ کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے اور اس ناپاک منصوبے سے باز رہنا چاہئے کیونکہ یہ منصوبہ ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہے۔

تحریر: علامہ ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree