The Latest

وحدت نیوز(قم المقدسہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان شعبہ قم کے سیکرٹری جنرل علامہ غلام محمد فخرالدین نے کہا ہے کہ علامہ عباس کمیلی کے فرزند علامہ علی اکبر کمیلی کی شہادت نے سندھ حکومت کے قیام امن کے دعوں کی قلعی کھول دی، سندھ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے شہر قائد میں دہشت گردی کی روک تھام میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں، مدارس کے نام پر قائم دہشتگردی کے مراکز شہریوں کے لئے ناسور بن چکے ہیں۔ کراچی میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے حالیہ سانحہ کی شدید مذمت کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم قم کے سیکرٹری جنرل کا کہنا تھا کہ علامہ علی اکبر کمیلی کی شہادت حکومتی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ کراچی میں آئے روز ایک منظم سازش کے تحت اہل تشیع ٹیچرز، اسکالرز، ڈاکٹرز اور انجینئرز کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے، علامہ علی اکبر کمیلی کا قتل بھی اسی سازش کا حصہ ہے۔ علامہ غلام محمد فخرالدین نے حالیہ واقعہ پر انتہائی دلی افسوس و رنج کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ علامہ علی اکبر کی شہادت کی ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کو دہشت گردی کی روک تھام کے لئے عملی اقدامات کرنا ہونگے اور علی اکبر کمیلی کے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کرکے قرار واقعی سزا دی جائے۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصرعباس جعفری نے موجودہ ملکی صورت حال اور انقلاب مارچ اور دھرنے کے سبب تہران میں منعقدہ عالمی غزہ کانفرنس میں شرکت کو منسوخ کر دیا ،مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سیکرٹری انفارمیشن سید مہدی عابدی کیمطابق علامہ راجہ ناصر عباس جعفری کوانہی دنوں تہران میں منعقدہ  عالمی غزہ کانفرنس میں شرکت کرنا تھی   علامہ راجہ ناصر عباس اسلام آباد میں جاری انقلاب مارچ میں کارکنوں کے ہمراہ  موجود رہینگے۔

وحدت نیوز (کوہاٹ) ایم ڈبلیوایم خیبر پختونخوا کی جانب سے کوہاٹ کے نواحی علاقے استرزئی میں زیارت عباس علمدار میں ایک پروقار پروگرام کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں علاقے کے عمائدین اور علمائے کرام نے بھرپور شرکت کی۔ اجلاس کی صدارت کے فرائض صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ سید سبطین الحسینی نے انجام دئیے۔ جبکہ اس موقع پر صوبائی دفتر کے مسئول مسٹر ارشاد حسین نے بھی شرکت کی۔

 

پروگرام میں علاقائی صورتحال اور مسائل پر غور کیا گیا۔ جسکے بعد حال ہی میں منخب ہونے والے نئے سیکریٹری جنرل علی داد خان نے خطاب کرتے ہوئے اپنی کابینہ کا اعلان کیا۔ جس کے بعد علامہ سبطین الحسینی نے نئے سیکریٹری جنرل اور اسکی کابینہ سے حلف لیا۔

 

پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے علامہ سبطین الحسینی نے کہا کہ وصیت امیر المومنین علی ع کے تحت آپ لوگ اگر اپنے امور میں تنظیم پیدا کریں۔ تو اپنے تمام مسائل کو حل کرنا آپ کے لئے کوئی مشکل نہیں۔ انہوں نے کہا کہ شہید حسینی نے بھی اپنے جد بزرگوار کی اسی وصیت کو روڈ میپ قرار دیکر پاکستان کی ملت تشیع کے گونا گون مسائل و مشکلات کا حل تلاش کیا۔ اور وہ اپنی ملت کو بیشتر مشکلات سے نکالنے میں کامیاب بھی ہوئے۔

 

انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین بھی شہید حسینی کے سچے پیروکاروں اور انکے محنتی شاگردوں ہی کی مرہون منت ہے۔ جو روز افزوں ترقی کررہی ہے۔ اور بہت کم عرصے میں ایک ملک گیر جماعت بن کر ملکی سطح پر شیعوں کے مسائل کو اجاگر کر رہی ہے۔ انہوں نے نئی کابینہ کو بھی تلقین کی کہ دن رات ایک کرکے علاقے کے عوام کو منظم کریں۔ اور پھر متفقہ طور پر علاقائی مسائل کو حل کرنے کی کوشش  کریں۔ پروگرام کے دوران انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ محرم سے پہلے ایک ایجوکیشن سیمینار اور عزاداری کانفرنس کا انعقاد کیا جائے گا۔ جس میں مرکزی رہنماؤں سمیت ٹیچرز صاحبان اور ماتمی سنگتوں کو بھی مدعو کیا جائے گا۔

وحدت نیوز(گلگت) وطن عزیز کی خاطر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے والے پاک فوج کے جوان قوم کے محسن ہیں۔ملک کو اندرونی اور بیرونی خطرات سے بچانے میں پاک آرمی کی خدمات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور یوم دفاع کے موقع پر شہدائے پاک فوج کو سلام پیش کرتے ہیں ۔ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی سیکرٹری جنرل شیخ نیئرعباس مصطفوی نے وحدت ہاؤس میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ انہوں نے کہا کہ وطن عزیز کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے والے انتہا پسندجو بیرونی ایجنڈے کی تکمیل میں مصروف عمل تھے اور اس ملک کے حکمرانوں نے سیاسی مصلحتوں کی وجہ سے ان کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی جو آئے روز بے گناہ عوام اور سیکورٹی فورسز پر مسلسل حملے کررہے تھے پاک فوج نے ان ملک دشمنوں کے عزائم کو خاک میں ملادیا اور آج ملک عزیز کے شہری سکھ کا سانس لے رہے ہیں۔ انہوں نے حالیہ بارشوں کے دوران چلاس نیاٹ کے علاقے میں قدرتی آفت کے نتیجے میں ایک ہی خاندان کے 8 افراد کی ہلاکت پرلواحقین سے دلی ہمدردی کا اظہار کیااور صوبائی حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس سانحے میں متاثرہ خاندان کے دکھوں کا مداوا کیا جائے۔

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین ملتان کے زیراہتما م ملک کے دیگر شہروں کی طرح ملتان میں بھی جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی کے بیٹے علامہ علی اکبر کمیلی کی المناک شہادت کے خلاف سوتری وٹ سے فوارہ چوک تک احتجاجی ریلی نکالی گئی۔ ریلی کی قیادت مجلس وحدت مسلمین ملتان کے سیکرٹری جنرل علامہ سید اقتدارحسین نقوی، علامہ قاضی نادر حسین علوی، علامہ غلام مصطفی انصاری اور ثقلین نقوی نے کی۔ ریلی کے شرکاء نے وفاقی اور سندھ حکومت کے خلاف بھرپورنعرے باز ی کی۔ رہنماؤں نے ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ علی اکبر کمیلی پر حملہ حکومت کی نااہلی اور دہشتگردوں کو فری ہینڈ دینے کا نتیجہ ہے، کراچی جیسے میٹروپولیٹن شہر میں جسکی غیر معمولی معاشی اہمیت ہو وہاں ٹارگٹ کلرز کا دندناتے پھرنا اور دن کے اجالے میں لوگوں کی جانیں لے کر فرار ہو جانا حکومت کی کارکردگی اور سکیورٹی اداروں کی سکیورٹی پر سوالیہ نشان ہے۔ ٹارگٹ کلنگ کا نہ تھمنے والا سلسلہ ملک میں جاری ہے جبکہ حکومت کو کوئی فکر ہے اور نہ ہی کبھی ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کا ارادہ معلوم ہوتا ہے۔ رہنماؤں کا کہنا تھا کہ ان واقعات کے پیچھے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ اور وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ کا ہاتھ ہے یہ دونوں رہنما سندھ میں دہشت گردوں اور تکفیریوں کی پشت پناہی کررہے ہیں۔ پاکستان میں شیعہ سنی فرقہ واریت کو ہوادے کر سعودی اور امریکی ایجنڈے پر عمل کیا جارہاہے۔ انہوں نے علی اکبر کمیلی کے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا نہ دی جائے تو کراچی میں بدامنی اور دہشتگردی کے جن کو قابو کرنا محال ہوگا۔ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کراچی کو پرامن بنانے کے لیے حکومت اور سکیورٹی ادارے ٹھوس بنیادوں پر عملی اقدامات اٹھائیں۔ریلی کے شرکاء نے مجلس وحدت مسلمین کے جھنڈے، پلے کارڈز اور بینرز اُٹھارکھے تھے جن پر حکومت مخالف نعرے درج تھے۔ اس موقع پر رہنماؤں نے گونواز گو کے نعرے لگائے۔

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل  و ترجمان علامہ حسن ظفر نقوی  نے علامہ علی اکبر کمیلی کی شہادت پر اظہار افسوس کرتے ہوئے نجی ٹی وی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شیعہ نسل کشی کی روک تھام میں وفاقی و صوبائی حکومت یکسر ناکام ہو چکی ہے، کراچی میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ ایک منظم اندازمیں جاری ہے، آج کل شیعہ کاروباری حضرات کو چن چن کر نشانہ بنایا جا رہا ہے، معاشی شہہ رگ کراچی میں اس طرح کی کاروائیاں عالمی سطح پر پاکستان کی بدنامی کا باعث بن رہی ہیں ، حکومتی نا اہلی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فقط ایک شیعہ ٹارگٹ کلنگ کا سد باب ان کے بس کی بات نہیں ، وفاقی حکومت تو عالمی سطح پر دہشت گردوں کی اسٹریجیٹک پارٹنر ہے،  لشکر جھنگوری، طالبان، نریندر مودی، امریکہ اور سعودیہ نوازحکومت کی اتحادی ہیں، کراچی سمیت ملک بھر میں جاری دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات  ضرب عضب کو سبوتاژ کرنے کی سازش ہے۔انہوں نے کراچی میں تاجروں اور عام شہریوں کی سلسلہ وار تارگٹ کلنگ کا ذمہ دار سندھ حکومت اور پولیس رینجرز کو قرار دیا ان کا کہنا تھا کہ تمام خفیہ ادارے با خوبی آگاہ ہیں کہ شہر میں کہاں کہاں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں ، لیکن پھر بھی کوئی کاروائی عمل میں نہیں لائی جاتی، حکومت ہمارے صبر کا مذید امتحان نہ لے، محرم الحرام کی آمد آمد ہےدہشت گردوں کو لگام نہ دی گئی تو ہمیں بھی نوجوانوں کا قابو رکھنامشکل ہو جائے گا۔

وحدت نیوز (تہران) رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آپریشن کے لئے اسپتال جاتے ہوئے مرکزی خبررساں شعبہ کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے فرمایا: میرا ایک آپریشن ہونا ہے جس کے لئے میں اسپتال جارہا ہوں۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ اس میں کوئی پریشانی کی بات نہیں ، لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ لوگ دعا نہ کریں، یہ ایک مختصر اور معمولی آپریشن ہے اور اس میں پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اللہ تعالی کا لطف و کرم شامل ہوگا اور انشاء اللہ، تمام کام اچھی طرح انجام پذیر ہوں گے۔

 

واضح رہے کہ رہبر معظم انقلاب اسلامی پروسٹاٹ بیماری کی وجہ سے آج صبح (بروز پیر) تہران کے ایک سرکاری اسپتال میں داخل ہوئے جہاں ان کا آپریشن کیا گیا جو الحمد للہ کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر حجتہ السلام حسن روحانی نے مقامی ہسپتال میں رہبر انقلاب اسلامی امام سید علی خامنہ ای کی عیادت کی اور ان کی جلد صحت یابی کی دعا بھی کی۔

تجزیے اور تجزیوں کا استعمال

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) تجزیہ کسی بھی چیز کوسمجھنے کے لئے کلیات کے اجزابیان کرنا ہوتا ہے اور اجزا کے بیان کرنے کے بعدوہ مبہم چیز واضع ہوجاتی ہے اور اس کے اجزا سمجھنے کے بعداس کی ہیت اس کے خدوخال،اس کے ثمرات ، اس کے اثرات اس کے نتائج اس کا ماد ہ ا س کی ترتیب وغیرہ سمجھ میں آجاتے ہیں،اور نا واقف بھی اس سے بڑی حد تک واقف ہوجاتا ہے یا مکمل طور پر سمجھ جاتاہے۔تجزیہ سائنس ،ٹیکنالوجی،طب،ثقافت،مذاہب ،عقائداور واقعات کا کیا جاسکتاہے۔

 

انسانی تاریخ گواہ ہے کہ اس علم کے ذریعے انسان نے جہاں مختلف شعبوں میں ترقی کی ہے وہیں پر انسان اسی علم کی وجہ سے تنزلی کا شکار بھی ہوتا رہا ہے جس میں اس علم کا قصور نہیں بلکہ اس علم کو جنھوں نے اغوا کیاان اغواکاروں کی شناخت نہ ہونا اور اس علم سے ناواقفیت ہی تنزلی کا سبب بنی ہے۔مثلا فزکس کے علم نے ابھی پوری طرح ترقی نہیں کی تھی کہ اغوا کاروں نے اس علم کو اغوا کرلیا اور اس علم کو اپنے مفاد میں استعمال کرکے اخلاق سوز فلمیں بناکر معاشرے کو گمراہ کرنا شروع کردیا اور مالی مفاد حاصل کرنے لگے۔اسی طرح کیمسٹری کے علم کو اغوا کرکے نشہ آور اشیا بنا کر پورے معاشرے میں بیچنا شروع کردیا اور وہی ناجائز مالی فوائد اٹھانا شروع کردیا یہی حال دیگر علوم کے ساتھ کیا جا رہا ہے حالانکہ اسی فزکس نے انساں کی بڑی بڑی بیماریوں کی تشخیص کے لئے الٹراساؤنڈمشیں اور کلر ڈوپلر ایجاد کیا اور انسانی زندگی کے دیگر مسائل کا حل بھی پیش کیا اور اسی کیمسٹری نے انساں کی بیماریوں کی شفا کے لئے ادویات اور ویکسیں ایجاد کیں۔

 

مقصد یہ کہ یا تو ان تمام علوم کو اغوا کاروں سے بچا کر ہی ترقی کی جا سکتی ہے اور تنزلی سے بچا جا سکتا ہے یا پھران اغوا کاروں کو پہچاں کر ان کے مقاصد کو سمجھا جا سکتا ہے۔اور ان کے شعبدوں سے افراد اور معاشرے کو تنزلی سے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔یہی حال آج کل تجزیہ کاروں کا ہے جو واقعات کا تجزیہ کرنے کے لئے اغواکار تجزیہ کار کے روپ میں آکر بیٹھ گئے ہیں جنھوں نے اپنے آقا اور اپنی جیب کو خوش کرنے کے لئے اس علم کو اغوا کر رکھا ہے اور الفاظ کے شعبدوں سے افراد کو گمراہ کرنے کا کاروبار کررہے ہیں اب یہ معاشرے کے افراد کا کام ہے کہ وہ اغوا کاروں اور تجزیہ کاروں کے فرق کو سمجھیں اور شفاٗ بخش ادویات اور نشہ آور ہیروئن کو پہچانیں۔

 

اور بڑے بڑے تجزیہ کاروں کے دھوکے میں نہ آئیں بلکہ تجزیوں کے استعمال کو سمجھیں کہ وہ واقعے کی کیا شکل دکھا کر کیا مفاد حاصل کررہے ہیں اور معاشرے کو تنزلی کی طرف دھکیل رہے ہیں یا معاشرے کو ترقی کی جانب رہنمائی کررہے ہیں۔معاشرے کے افراد کو فقط ذرائع ابلاغ کے ذریعے ملنے والے تجزیوں پر کان نہیں دھرنا چاہئے بلکہ اپنے علم اور مشاھدے کو بھی استعمال کریں اور تجزیہ کاروں کے روپ کوبھی پہچان کر ان کا جائزہ لیں معاشرے میں اس وقت تجزیہ کاری کا کاروبار عروج پر ہے اور اس میں سب ہی کود پڑے ہیں ٹی وی کے تجزیہ کار ،اخباروں کے تجزیہ نگار، فیس بک کے تجزیہ نگار،رسائل کے تجزیہ نگار، اسٹیج کے تجزیہ کار،بیٹھکوں کے تجزیہ کار منبر و مساجد کے تجزیہ کار اورگلی کوچوں کےتجزیہ کار۔ اور پھر ان میں بھی شعبہ جاتی تجزیہ کاری ہے جیساکہ سیاسی تجزیہ کار ،مذہبی تجزیہ کار، معاشی تجزیہ کار،عسکری تجزیہ کاروغیرہ۔
ان سب کی پہچاں اور ان کے تجزیوں کی اصل اوران کے نتائج پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ تجزیوں کے ذریعہ معاشرے کا برین واش اور ذہن سازی کی جارہی ہے اور اسے خاص سمت میں دھکیلا جارہا ہے۔

 

ہر دور گذشتہ سے زیادہ اس دور میں با ہوش اور با خبر رہنے کی بہت ضرورت ہے کیونکہ یہ ابلاغ کا دور ہے اس دور میں گمراہی کے مواقعے بہت اور ہدایت کے مواقعے محدود ہیں حق سے ملتی جلتی بدعتیں زیادہ ہیں اور رہنماٗ کے روپ میں رہزن ہر جگہ موجود ہیں جھوٹ کو جلد قبول کیا جارہا ہے اور سچ ٹھکرایا جارہا ہے لھٰذااذھان اور فکر کی پاکیزگی کے لئے ہر وقت کوشاں رہنا ہوگا اور سہل پسندی سے نکل کر میدان علم میں آنا پڑے گا معاشرے اور افراد کی ذہنی غلامی سے بچاؤ کے لئے فقط ٹی وی اور اخبار یا سطحی علم پر انحصار کرنے کے بجائے اس مسئلے کے حل کے لئے ھم سب کو سنجیدگی کے ساتھ علم حاصل کرنا پڑے گا اور اس علم کی بنیاد اخبار و رسائل یا کوئی سطحی وسیلہ اختیار کرنے کے بجائے اصل اور تحقیقی بنیادوں پر واقعات کو سمجھنا ہوگا ۔اور معاشرے کو ان اغوا کاروں سے بچانے کے لئے تاریخ،جغرافیہ،سماجی وعسکری علوم کے ساتھ ساتھ مشاہدے کو بھی بروئے کار لانا پڑیگا۔تاکہ کوئی اغواکار تجزیہ کار کے روپ میں معا شرے کا بریں واش کرکے تنزلی کی طرف نہ دھکیل سکے۔

 

تحریر:عبد اللہ مطہری

شاہراہ دستور پر اسلامی اتحاد کا مظاہرہ

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اس بات کی ضمانت دی گئی کہ تمام ادیان اور مذاہب اپنی مذہبی رسومات اور آداب کو آزادی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں۔ لیکن ابھی ملک کی بنیادیں مضبوط بھی نہ ہوئی تھیں کہ جن لوگوں نے قائداعظم کو نعوذ باللہ کافر اعظم کے لقب سے نوازا تھا وہ ملک کے استحکام کو تکفیریت اور تفرقہ گرائی کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کرنے لگیں۔ یہ کام اس وقت اپنے اوج کو پہنچا کہ جب روس کے خلاف جہاد کیلئے افغانستان میں بین الاقوامی لشکر بذریعہ پاکستان پہنچنا شروع ہوئے اور اس سارے کام کی ذمہ داری ایک مخصوص فکر رکھنے والے گروہ کے حوالے کی گئی۔ عالمی طور پر ایران کے اندر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کو آپس میں دست و گریبان کرنے کی سازشیں زور پکڑنا شروع ہوگئیں۔ انہی حالات میں امام خمینی نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کو بنیادی ضرورت قرار دیا اور شہید علامہ عارف حسین الحسینی پاکستان میں داعی وحدت اسلامی قرار پائے ۔ آپ نے تمام مسلمانوں کو امام خمینی کے یکجہتی اور اتحاد کا پیغام پہنچایا۔ افغان جہاد کا عروج طالبان کے تولد کے ساتھ اپنے زوال کی طرف گامزن ہوا اور پاکستان میں جہاد پلٹ طاقتیں پوری قدرت کے ساتھ مسلمان دشمنوں کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف عمل ہوئیں۔ تحریک طالبان پاکستان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، پنجابی طالبان اور نہ جانے کتنے مکروہ چہرے رانا ثناء اللہ جیسے اپنے سیاسی آقاووں کے زیر نگرانی ملک میں مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کیلئے پوری طرح کوشش کرتے رہے۔ملت تشیع نے ملک میں اپنا خون تو دیا لیکن اسلامی اتحاد کو خدشہ دار نہیں ہونے دیا گیا۔ ملت کے ذمہ دار ہمیشہ ہی مسلمانوں کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کے لئے کوشاں رہے ہیں۔

 

اسلامی اتحاد اور ہماہنگی کیلئے کی جانے والی مختلف کوششوں کے نتیجہ میں پاکستان میں مختلف ادارے بھی تشکیل پائے کہ جن میں سرفہرست ملی یکجہتی کونسل کا قیام تھا۔ لیکن ہمیشہ جس بات کی کمی رہی وہ یہ تھی ملک کی اکثریت بریلوی مکتب فکر کو خاص اہمیت نہیں دی گئی بلکہ  دیوبندی گروہ ہی  زیادہ اہمیت کے محور قرار پائے ۔

 

جب پاکستانی قوم نے بے پناہ مشکلات کے باوجود اس بات کا احساس کیا کہ اب اس ملک کی نظریاتی سرحدیں بھی محفوظ نہیں ہیں اور ملک پر ایسے حکمران مسلط ہو گئے ہیں کہ جو ملک دشمن قوتوں کی حمایت کررہے توعوام کے درمیان بے چینی پیدا ہونی شروع ہوئی اور یہی بات اس چیز کا سبب بنی کہ لوگ ظالم نظام کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔ بڑے بڑے معاشرتی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی جگہ ہزاروں لوگ کسی نظام سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کیلئے سڑکوں پر آتے ہیں تو ایک بڑی تعداد میں خاموش اکثریت ان کی حامی ہوتی ہے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ آج کی اس مصروف دنیا میں جب کسی کے پاس کسی دوسرے فرد کو دینے کے لئے اپنی زندگی میں چند لمحات کا نکالنا مشکل ہے اور عوام اپنی روزمرہ زندگی کو گذارنے کیلئے صبح و شام محنت کرتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ لاکھوں لوگ غیر معینہ مدت کیلئے اپنے گھروں ، اپنے کام کاج کو چھوڑ کر ایک ایسے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کہ جس کے حصول کا یقین بھی نہ ہو اور اس میں خطرات کا بھی خدشہ ہو کس طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھروں سے باہر نکل آئیں۔ یہ قوت  جو لوگوں اس اقدام پر آمادہ کرے سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ لوگ ظالم نظام سے تنگ آچکے ہوں اور اپنے حقوق کو حاصل کرنے کیلئے مر مٹنے پر تیار ہوں۔ ایک فاسد حکومت نے ان کے لئے جینا دوبھر کر دیا ہو اور وہ اپنے آپ کو بنیادی حقوق سے محروم سمجھتے ہوں۔ یہ احساس محرومیت ہے کہ جو قوم کو گھروں سے باہر نکال کر سڑکوں پر ڈیرے ڈالنے پر آمادہ کردیتی ہے۔

 

پاکستان کی تاریخ میں بہت سے احتجاج ہوئے ہیں، بہت سے لانگ مارچ ہوئے ہیں لیکن جس لانگ مارچ کا  آج کل پاکستان کے عوام مشاہدہ کررہے ہیں وہ ماقبل کی تمام تحریکوں سے مختلف ہے۔ کوئٹہ میں کئی سو شہیدوں کا خون اس وقت رنگ لایا جب اس خون کی حرارت نے ملک بھر میں شہدا کی وارث ملت کو ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا موقعہ فراہم کیا اور یہ پر امن لیکن موثر احتجاج پوری قوم کیلئے نمونہ عمل بن گیا۔ اس تحریک نے لوگوں کے دلوں میں امید کے چراغ جلائے اور قوم کے درمیان اس احساس کو بیدار کیا کہ ہاں عوام کی طاقت کے بل بوتے پر زمانہ حاضر کے رئیسانی جیسے فرعونوں کو شکست دی جا سکتی ہے اور یہ احساس بالاخر قوم کو ظالم نظام کے مدمقابل لے آیا۔

 

گذشتہ برس جب اسلام آباد میں زرداری صاحب کی حکومت تھی تو تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک نے لانگ مارچ کا اعلان کیا لیکن سیاسی تسلیوں اور وعدہ وعیدوں کے بعد لوگ اپنے گھروں کے لوٹ گئے اگرچہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کےبقول اس مارچ کی مکمل تیاری نہیں کی گئی تھی۔ لیکن اس سال ۱۰ اگست یوم شہدا کے بعد جس انقلاب مارچ کا آغاز کیا گیا وہ مکمل طور پہلی تحریکوں سے یکسر مختلف تھا۔

 

یہاں اس مارچ کے صرف ایک پہلو کی طرف توجہ مرکوز کروانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جہاں اس انقلابی حرکت کے اور مخٹلف ثمرات ہیں وہاں سب سے اہم فائدہ یہ ہے ملک و ملت کے دشمن کی فرقہ کی بیاد پر تقسیم کی سازش کا مقابلہ ہے۔  جس کی خاطر دشمن نے بہت محنت کی اور یہ سازش گذشتہ سال کے عاشور کے دن اپنے اوج کو پہنچی جب عزادری امام حسین علیہ السلام کو قوم کے درمیان اختلاف کا بہانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور عملا ملت تشیع کو ملک میں تنھا کردیا گیا۔ عاشورہ کے حادثے کے چند دن بعد تک پوری قوم کا میڈیا ٹرائل کیا گیا اور ملک میں عزاداری پر پابندی لگانے کی منحوس فکر پروان چڑھنا شروع ہوئی۔ پاکستان کے اطراف و اکناف سے شیعہ سنی اختلاف اور شیعہ سنی داخلی جنگ کی خبریں سنائی دینا شروع ہوئیں ایسے میں پاکستان کے فطری مدافع اتحاد جس میں سنی شیعہ حقیقی نمایندے موجود تھے اس سازش کو ختم کرنے کیلئے فعال ہوئے اور بالاخر جاری سال کے ۱۰ اگست یوم شہدا کے بعد شروع ہونے والی انقلابی تحریک نے اس منحوس فکر کو ملک سے نکال پھینکا۔

 

انقلاب مارچ کا اگر کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن مجلس وحدت مسلمین کے اس مارچ میں شرکت کے فیصلے نے ملک و قوم کو اس عظیم نعمت سے ہمکنار کیا کے دشمن کی سال ہا سال سے جاری اختلاف اور تفرقہ افکنی کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ پاکستانی قوم کو تاریک فرقہ انگیزی کے دور سے گذرنے کے بعد بالاخر یہ موقع بھی نصیب ہوا کہ وہ اسلام  آباد کی شاہراہ دستور پر اسلامی اتحاد کے حقیقی مظاہرے کا مشاہدہ کرے۔

 

اس بارے میں نقل شدہ اخباری رپورٹوں کا سہارا نہیں لوں گا بلکہ چند ایک ایسے واقعات کو جن کو خود اپنی آنکھ سے دیکھنے کا موقع ملا اپنے قارئین کیلئے بیان کروں گا۔
اگر اس بات کی طرف اشارہ نہ بھی کیا جائے کہ انقلاب مارچ سے شروع ہونے سے قبل اس حقیقی شیعہ سنی اتحاد کے رہبروں  کے درمیان کتنی ملاقاتیں ہوئیں اور یہ آپسی محبت و آشتی کے کتنے رشتہ ناتوں کا سبب بنیں شاہراہ دستور اس بات کے اثبات کیلئے کہ انقلاب مارچ پاکستان میں اسلامی اتحاد کے نئے باب کو رقم کرنے میں کامیاب ہوا ہےکافی ہے۔

 

مجھے یاد ہے کہ جب گوجرانوالہ کے کسی نواحی علاقہ میں اپنے نجی کام کے سلسلے میں گیا ہوا تھا تو ایک شخص نے کہ جسکا دور دور بھی کسی تنظیم اور تنظیمی کاموں سے واسطہ نہیں تھا نے مجھ سے کہا کہ " شاہ جی طاہر القادری کے ساتھ ملنے کا فیصلہ بہت زبردست تھا، ہم ہر روز اس بازار سے گذرتے ہیں یہاں تو اب حالت یہ تھی کہ کسی شیعہ کو دیکھ کر لوگ راستہ تبدیل کر لیتے تھے لیکن ابھی وہ ہمیں اپنا اتحادی سمجھتے ہیں اور دیکھتے ہی سلام کرتے ہیں "

 

ایک دن مجھے انقلاب مارچ میں شریک ہونے کا موقعہ ملا مغربین کا وقت تھا ہم چند دوست نماز پڑھنا چاہ رہے تھے وضو کرنے لگے تو وہیں موجود اہلسنت دوستوں نے وضو کے پانی کا اہتمام کیا قبلہ حجت الاسلام و المسلمین راجا محسن صاحب نے امامت کے فرائض انجام دئے اور ہم نے باجماعت نماز پڑھی اس دوران دھرنے میں موجود اہلسنت برادران نے نماز کی حفاظت کا کام اپنے ذمہ لیا اور جو لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا چاہتے تھے ان سے کہا جاتا تھا کہ یہاں نماز ہو رہی ہے آپ دوسرے راستے سے چلے جائیں۔ یہ حالات دیکھ کر میرے ذہن میں آیا کہ آج اس ملک کا دشمن اپنے مقاصد میں ناکام ہو گیا ہے۔ انقلاب مارچ اپنے اہداف میں کامیاب ہو گیا ۔ آپ خود بتائیں آیا یہ ملک میں انقلاب سے کم ہے کہ اہلسنت کی سب سے بڑی تنظیم کا اتنا بڑا اجتماع ہو کہ جو اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں تو سب ہی قبول کرتے ہیں  اور اس میں راولپنڈی / اسلام آباد کا ایک شہری حضرت عباس علیہ السلام کے علم کی شبیہ کو لے کر اجتماع کے وسط میں موجود ہو اور نہ صرف یہ کہ لوگوں کو اس بات پر اعتراض نہ ہو بلکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ عام لوگ علم کو سلام کر رہے ہوں۔ ایک شیعہ عالم دین جب عوام کے درمیان سے گذر رہا ہو تو لوگ نعرہ حیدری کے ساتھ اس کا استقبال کریں۔ جس ملک کی حالت تکفیری نعروں اور تکفیری تفکر کے پرچار کی وجہ سے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس ملک کی فوج میں نعرہ حیدری جو ایک رائج شعار تھا ممنوع جانا جائے وہاں سنی اتحاد کونسل کا صدر اپنی تقریر کو نعرہ حیدری سے آغاز کرے تو آیا یہ ملک میں تبدیلی کی علامت نہیں ہے؟ ہاں شاہراہ دستور پر انقلاب مارچ میں حقیقی اسلامی اتحاد کا مظاہرہ ہوا خصوصا اس وقت کے جب میں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک انقلابی بیٹی کو یہ تقریر کرتے سنا کہ اے لوگو ؛  یاد رکھو کہ اگر حضرت زینب سلام اللہ علیھا میدان کربلا میں نہ ہوتیں تو امام حسین علیہ السلام کی قربانی اسی میدان میں باقی رہ جاتی ہم زینبی (س) مشن کو لے کر نکلے ہیں اور اگر اس راہ میں آپ کو بھوک کو احساس ہو تو حضرت علی اکبر علیہ السلام کی بھوک کو یاد کرنا اور اگر پیاس کا احساس ہو تو حضرت علی اصغر علیہ السلام کی پیاس کو یاد کرنا اور اگر اپنے شہدا کے یاد ستائے تو حضرت زینب سلام اللہ علیھا کو یاد کرنا اور اگر اس راہ میں قربانی دینے کا موقع آئے تو حضرت امام حسین علیہ السلام کو یاد کرنا اور اسی جلسہ میں جب علم حضرت عباس علیہ السلام سٹیج کے سامنے قرار پایا تو  پاکستان عوامی تحریک کے ایک معروف لیڈر نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم عباس علمدار علیہ السلام جیسے باوفا کے ماننے والے ہیں اور ہمیشہ اپنے مقصد کے ساتھ وفادار رہیں گے۔

 

انقلاب مارچ نوازشریف کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو یا نہ ہوپاکستان میں تکفیریت اور تفرقہ گرائی کی منحوس فکر کو گرانے میں کامیاب ہو چکا ہے ۔۔ ۔

    

تحریر:سید میثم ہمدانی(قم المقدسہ)
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین بلوچستان کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے کراچی میں جعفریہ الائنس کے سربراہ علامہ عباس کمیلی کے صاحبزادے علامہ علی اکبرکمیلی اور یاسر ترمذی کے قتل کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے سندھ حکومت کی ناکامی قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن کے باوجود کراچی میں معصوم شہریوں کا قتل لمحہ فکریہ ہے۔ جو حکمران عوام کو تحفظ نہ دے سکیں انہیں اقتدار میں رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ریاستی ادارے کراچی میں جاری قتل عام روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کریں۔ ارباب اقتدار اور ریاستی اداروں کی نا اہلی سے تنگ عوام ،انقلاب کا پرچم لے کر اسلام آباد میں بیٹھے ہیں،قبل اس کے کہ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوجائے ،نواز لیگ کی وفاقی اور پی پی کی صوبائی حکومت قیام امن کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کرے اور کراچی میں جاری معصوم انسانوں کے قتل عام کا سلسلہ روکے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سپریم کورٹ کراچی میں آئے روزمعصوم انسانوں کے قتل عام کا از خود نوٹس لیتے ہوئے مجرموں کو تختہ دار پر لٹکانے کا اہتمام کرے۔ انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے اس ملک میں نہ انصاف ہورہا ہے اور نہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ دہشت گرد آزاد ہیں اور ان کی سرپرستی بھی ہورہی ہے۔

 

انہوں نے بارش اور سیلاب کے نتیجے میں وسیع پیمانے پر ہونے والے جانی و مالی نقصان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ تین دن کی بارشوں نے خادم اعلیٰ پنجاب کی کارکردگی کو بے نقاب کر دیا کروڑوں روپے کی لاگت سے تیار کردہ انڈر پاس تالاب بن چکے ہیں۔ جہاں نکاسی آب کا کوئی بندوبست نہیں کچے بوسیدہ مکانات اور بجلی کی ننگی تاریں بھی موت کا پیغام لے کر آئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کی جانب سے پنجاب کے دریاؤں میں لاکھوں کیوسک پانی چھوڑنا افسوس ناک اور قابل مذمت ہے۔ انہوں نے کہا کہ نواز حکومت نے صرف ایک سال میں پانچ ہزار ارب روپے قرضہ حاصل کر کے پوری قوم کو مقروض بنا دیا ہے۔ ماضی کے تمام رکارڈ توڑتے ہوئے خطیر رقم قرضہ لے کر ارباب اقتدار نے اپنے شاہانہ اخراجات ، کرپشن اورعیاشی پر خرچ کیے ہیں۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree