وحدت نیوز (اصفہان / نجف اشرف) مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان اور نجف اشرف کی علیحدہ علیحدہ تنظیم نو کی تقاریب کا انعقادعید زہراؑاور جشن تاج پوشی امام زمانہ عج کے پر مسرت موقع پر کیا گیا،جس میں مشاور ت کے بعد مولانا تصور عباس مہر ایم ڈبلیوایم شعبہ اصفہان اور مولانا سید خاور عباس شعہ نجف اشرف کے سیکریٹریٹ جنرل نامزدکیئے گئے، تفصیلات کے مطابق سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان سید تقی شاہ زیدی نے اپنے تین سالہ کارکردگی کی رپوٹ پیش کرتے ہوے اپنے عہدے سے رسمی طور پر دستبرداری کا اعلان کیا اور آئندہ تین سالہ دورانیہ کیلئے برادر تصور علی مہر کو اپنے ہم منصب کے طور پر متعارف کروایا.سابقہ سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان نے مستقبل میں کسی قسم کے عہدے کی پذیرش سے عذرخواہی کرتے ہوے ایک کارکن کے طور کار الہی کیلئے سرگرم عمل رہنے کی یقین دہانی کروائی.مسئولین نے مشاورت کے بعد حوزہ علمیہ اصفہان کے سینئرطالب علم مولانا تصور عباس مہر کو آئندہ تین سال کیلئے سیکریٹری جنرل منتخب کرلیا۔
واضح رہے کہ یہ اعلان جشن تاج پوشی امام زماں(عج)کے موقع پر کیا گیا جو تشکل عارف الحسینی( یونٹ آف شیعہ علماء کونسل)اور مجلس وحدت مسلمین شعبہ اصفہان کی باہمی کاوشوں سے منعقد ہوا اور اس جشن کی رمق و دمق نے سر زمین اصفہان پر ہونے والے گذشتہ تمام پروگرامز کی رونقوں کو ماند کردیا.اس جشن سے افراد حاضر پر یہ ظاہر ہوا کہ برادر تقی شاہ زیدی نے بلا تفریق للہیت کے لئے کام کیا اور شیعیان حیدر کرار میں وحدت کو برقرار رکهتے ہوے ہر قسم کی قربانی پیش کی۔
دوسری جانب مرکزی سیکرٹری امور خارجہ جناب ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی نے اپنے بیان میں اعلان کیا ہے کہ شعبہ نجف اشرف اور شعبہ اصفہان کے ذمہ داران کی مشاورت کے بعد نجف اشرف کے سینئر اور فاضل طالب علم جناب مولانا سید خاور عباس کو وہاں کا مسؤول اور اسی طرح حوزہ اصفہان کے فاضل جناب مولانا تصور عباس مہر کو مسوولیت دی گئی ہے. دونوں علماء مجلس وحدت کے فعال کارکن ہیں. انہوں نے ان شعبہ جات جات کے سابقہ مسؤولین جناب مولانا ناصر عباس گل صاحب اور اور جناب مولانا سید تقی زیدی کی بے لوث خدمات اور فعالیت کا شکریہ ادا کیا. اور نو منتخب برادارن کی کامیابی اور توفیقات کی دعا بھی کی.
وحدت نیوز (آرٹیکل) دسمبر کا مہنیہ تھا حسب معمول میں کراچی شاہ فیصل کالونی میں واقعہ سپیریئرکالج کے لئے روانہ ہوا ، کالج پہنچنے کے بعد کوئی دس گیارہ بجے کے قریب اور شائد تیسری کلاس ابھی شروع ہوئی تھی، پروفیسر صاحب نے اپنے درس کا آغاز کیا ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ دس بارہ اوباش نوجوان لڑکے کسی کی اجازت لئے بغیر کلاس میں داخل ہوئے اور پروفیسر کو اشارہ سے کلاس چھوڑنے کا حکم دیا، استاد بھی کراچی کے حالات سے واقف تھے لہذا خاموشی سے سرجھکا کر نکل گئے۔ کلاس میں سناٹا چھا یا ہوا تھا چالیس لڑکوں کی موجودگی کے باوجود ایسا محسوس ہو رہا تھا کی کوئی زندہ انسان موجود نہ ہو اتنے میں اُن آنے والے لڑکوں نے جن کا تعلق سیاسی تنظیم سے تھا گرجدار آواز میں پوچھا کہ فلاں پارٹی کے حمایت میں کالج کے اندر وال چاکنگ کس نے کی ہے اس پارٹی کے حمایتی کتنے لوگ موجود ہیں؟ اس کے بعد ایک ایک کر کے تمام لڑکوں سے ان کے نام اور رہائش کا پوچھنے لگے، جس کے اوپر شک ہوا اس کو باہر نکالتے گئے، کالج کے اندر تین کمروں پر مشتمل سیاسی پارٹی کے اسٹوڈنٹس ونگ کا دفتر تھا جہاں وہ اپنے نظریہ کے مخالف لڑکوں کو لے جاتے تھے اور ڈرانے دھمکانے کے علاوہ ذردو کوب بھی کرتے تھے لیکن پرنسپل سمیت کالج کے اسٹاف میں سے کسی کی مجال نہیں کہ وہ کچھ کہیں، بے چارے پروفیسرز روز آتے تھے اور اپنی اپنی کلاس ٹائمینگ پر کلاس لیتے مگر تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے بجائے سیاسی کام زیادہ ہوتے تھے ، استاد و طلبہ کسی تعلیمی استفادہ کے بغیرہی گھر واپس چلے جاتے، یہ تو ایک کالج کا آنکھوں دیکھا حال ہے جس کا تذکرہ میں نے کیا ہے۔
ہمارا موجودہ تعلیمی نظام چھ حصوں میں تقسیم ہے، کے جی اسکول، پرائمری، مڈل، ہائی اسکول، انٹرمیڈیٹ، ہائیر سکینڈری سرٹیفکیٹ یعنی یونی ورسٹی کی تعلیم، پاکستان میں ہر سال تقریبا445000 اسٹو ڈنٹس یونی ورسٹیوں سے گریجویٹ کی ڈگری حاصل کر تا ہے، پھر بھی ہم دیگر ممالک کی نسبت تعلیمی میدان میں بہت پیچھے ہیں اور نائجیریا کے بعد دوسرے نمبر پر ہمارے بچے اسکولوں سے محروم ہیں، جی ڈی پی کا بہت کم فیصد ہماری تعلیم پر خرچ ہوتاہے ، جو اسکول بنتے ہیں وہ یا تو کبھی سیاسی آفس بن جاتے ہیں یاپھر کبھی بم دھماکوں سے اڑا دیے جا تے ہیں ۔ہم نے کبھی تعلیم کو اپنے اور معاشرے کی اصلاح کیلئے حاصل ہی نہیں کیااور نہ ہی ایسا کوئی رواج ہے، والدین کا بچوں کو تعلیم حاصل کرانے کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ وہ پڑھ لکھ کر نوکری کرے اور پیسا کمائے اسی لئے ابھی تک پڑھا لکھا انسانیت کا درد رکھنے والا کوئی حکمران نہیں آیا، بلکہ ہر پڑھالکھا نوجوان کسی غیر تعلیم یافتہ کا نوکر بن جاتا ہے۔بعض افراد ہمارے تعلیمی نظام کو پورانا اور فرسودہ قرار دیتے ہیں مگر میرا خیال ہے کہ ابھی اس وقت جو ہمارا تعلیمی نظام موجود ہے اگر اسی کو دیانت داری اورقوم کے مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے صحیح معنوں میں چلایا جائے تو ہم ایک تعلیم یافتہ قوم بن سکتے ہیں۔
میں سوچ رہا تھا کہ ایسا تعلیمی نظام صرف کراچی میں ہوگا مگر مجھے اسلام آباد کے اسلام آباد ماڈل اسکول اینڈ کالج فار بوائز بارہ کہو میںیہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چھٹی ساتویں کلاس کے طالب علم ریڈنگ تک صحیح سے نہیں کر سکتے تھے، لیکن یہ بچے کیسے صحیح تعلیم حاصل کرتے، ہر کلاس میں ساٹھ سے ستر بچے موجود ہوتے ہیں ،کچھ استاد دیانت داری سے پڑھانا توچاہتے ہیں مگر وہ بچوں کی اتنی بڑی تعداد کو صحیح طرح سے پڑھا ہی نہیں پاتے، بعض اساتذہ اپنی ذمہ داریوں سے غافل بھی ہیں، یہ بچے سارے نالائق ہیں پڑھنے والے نہیں ہیں کہہ کر حاضری کی حد تک محدود رہتے ہیں، اگر ہم پرائیویٹ اسکولوں کی طرف دیکھیں تو بعض کے علاہ ہر محلہ گلی کا اسکول صرف کاروبار کی حد تک ہے جہاں پر بچوں کو تعلیم یافتہ نہیں رٹہ یافتہ بنایا جاتا ہے ،پھر یہ بچے نقل کر کے پیسے کھلا کر جیسے تیسے کر کے میٹرک پاس کرتے ہیں اور اکثر نوکری کے چکر میں لگ جاتے ہیں کچھ گھریلو مجبوریوں کی وجہ سے پڑھ نہیں پاتے باقی جب کالجوں میں پہنچتے ہیں تو کالج کے غیر تعلیمی ماحول (یہاں پر اکثریت کی بات ہو رہی ہے) اور سیاسی و دیگر سرگرمیاں ان کو مزید نالائق بنا دیتی ہیں،بچے کالج کم ٹیویشن اور کوچنگ سنٹر میں زیادہ جاتے ہیں شہر میں اتنے ریڑی والے نہیں ہونگے جتنے جگہ جگہ کارباری تعلیمی مراکز موجود ہیں۔بلا آخر کچھ فیصد بچے یونی ورسٹیوں میں پہنچتے ہیں تو اس میں بھی سفارش اور پیسے شامل ہوتے ہیں اُوپر سے ڈگری بھی بگتی ہے جتنا پیسا اتنی اعلیٰ ڈگری جس فیلڈ میں چاہو دستیا ب ہے، بحر حال خلا صہ یہ کہ جب تعلیم حاصل کرنے کا مقصد صرف اچھی نوکری حاصل کرنا ہو اورعلم کے حصول کو کاروبار بنادیا جائے تو ہم ایسی ہی مشکلات کا سامنا کرتے رہیں گے۔
کبھی ہم پر بم و بارود کی بارش ہوتی ہے تو کبھی کرپٹ ، دین اور ملک کے سوداگرہم پر حکمرانی کرتے ہیں، جن کی ڈگری جعلی ہوتی ہے وہ بے خوف خطر ہم پر مسلط ہو جاتے ہیں، جن کو الحمد، بلکہ قومی ترانہ تک نہیں آتا وہ ہمارے سینٹ اور پالیمنٹ میں موجود ہیں تو کیسے یہ ملک ترقی کرے گا؟ کس طرح جی ڈی پی میں تعلیم کیلئے ضرورت کے حساب سے فنڈ مختص کریں گے؟کس طرح دہشت گردی، کرپشن سے ہم مقابلہ کریں گے؟کیسے ہم اپنے ملک کے مستقبل کی اصلاح کریں گے؟اس زمانے میں ترقی کا واحد حل تعلیم ہے، جب سے ہم نے اپنے آباو اجداد کی رسم کو چھوڑا ہے تب سے ہم تنزلی کا شکار ہوہے ہیں ایک زمانہ وہ تھا کہ کیمیا دان ، ریاضی سے لیکر طب تک کے ماہر مسلمان تھے علم کا مرکز بغداد تھا ، جب سے مسلمانوں نے علم سے دوری اختیار کی ہے تب سے ہم کمتر اور حقیر ہو کر رہ گئے ہیں، ہر دور میں غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ہیں اور ان پڑھ جاہل ہم پر مسلط ہوئے ہیں جس کا تسلسل آج تک جاری ہے اور جہاں جہاں جس جس نے علم کے دامن کو تھوڑا تھامے رکھا ہے وہ آج بھی دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹے ہوئے ہیں، علامہ اقبال نے ایسے ہی تو نہی کہا تھا
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارا
کسی قوم یا شخص کے لئے سب سے مشکل وقت وہ ہے جب وہ اندر سے کھوکھلا کر دیا جائے اس کے اندر کچھ نہ ہو اس کو دشمن کی سازش کا علم نہ ہو،جب انسان علم کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے تو اس کو کوئی زیر نہیں کرسکتا بے شک وہ غریب ہی کیوں نہ ہو وہ دشمن کی ہر سازش کو آرام سے سمجھ سکتا ہے اپنے آپ کو نقصان سے بچا سکتا ہے لیکن علم کی قیمت اچھی نوکر ی حاصل کرنے کی حد تک ہو تو پھر 69 سال گزرنے کے باوجود نوکر ہی رہتا ہے اور نااہل لوگ حکمران بن کر سروں پر مسلط ہو جاتے ہیں، اور اشرف المخلوقات کو بھیڑ بکریوں کی طرح چن سکوں کے عوض اپنا قیدی بنالیتے ہیں ۔اس موقع پر صاحبان علم پر فرض ہے کہ وہ علم کی شمع کو بجنے نہ دیں اور معاشرے میں موجود خرابیوں کی نشاندہی کریں اور معاشرہ کی اصلاح کے لئے اپنی توانائیوں کو بروکار لائیں تاکہ اس امت کو اندھرے سے نکالا جا سکے۔
تحریر۔۔۔۔ ناصر رینگچن
وحدت نیوز (بہاولپور) مجلسِ وحدت مسلمین شعبہ خواتین پاکستان کی مرکزی سیکرٹری جنرل خواہر زہرہ نقوی نے ضلع بہاولپور کا ایک تفصیلی دورہ کیا،اور ایام عزاء "شھادتِ امام حسن العسکری(ع)" کی مناسبت سے مجلس عزاء سے بھی خطاب کیا جسمیں ضلع بہاولپور کی خواتین نے بچوں کیساتھ بڑی تعداد میں شرکت کی۔مرکزی سیکرٹری جنرل شعبہ خواتین خواہر زہرہ نقوی نے بمناسبت شھادتِ امام حسن العسکری(ع)، امام کی سیرت و زنداگانی ، سیاسی و سماجی حالات و واقعات، وکلاء سے روابط، غیبتِ صغرا و غیبتِ کبرا کے حوالے سے تیاری اور ظہُورِ امام العصر(عجل فراجھم) کی زمینہ سازی کے حوالے سے تفصیلی خطاب کیا،اسکے علاوہ مرکزی سیکرٹری جنرل شعبہ خواتین خواہر زہرہ نقوی نے شعبہ خواتین ضلع بہاولپور کی کابینہ کے ساتھ بھی ایک تفصیلی میٹنگ کی، جسکے بعد خواہر طاہرہ گردیزی کی بطور جنرل سیکرٹری شعبہ خواتین ضلع بہاولپور تقریبِ حلف برداری عمل میں لائی گئ۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین صوبہ سندہ کے سیکریٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی نے ایک وفد کے ہمراہ پیپلز پارٹی کے رہنما ، صوبائی وزیر میر ہزار خان بجارانی اور صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ سے الگ الگ ملاقات کی ۔اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم کراچی کے رہنما برادر میثم رضا عابدی،سید رضا امام اور برادرتقی ظفر بھی ان کے ہمراہ تھے۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ سندہ بھر میں تکفیری دہشت گردوں کے اڈے لمحہ فکریہ ہے ،شکارپور کو وانا اور وزیر ستان بنانے کی کوشش ہو رہی ہے ۔انہوں نے کہا کہ طویل عرصہ گذر جانے کے باوجود وارثان شہداء سے کیے گئے معاہدے پر عمل در آمد نہیں ہوا۔سندہ حکومت کو چاہیے کہ وہ معاہدے پر عمل در آمد کو یقینی بنائے ۔سانحے کے بعض زخمیوں کو علاج کی آج بھی اشد ضرورت ہے۔ اس موقع پر سندہ کی سیاسی صورتحال اور ملت سے مربوط بعض مسائل پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے میر ہزار خان بجارانی نے کہا کہ دہشت گرد معاشرے کے لیے ناسور ہیں جن کا سد باب ضروری ہے۔سندہ گورنمنٹ نے معاہدے پر عمل در آمد کے سلسلے میں جو کمیٹی تشکیل دی ہے وہ معاہدے کے بقیہ نکات کو دیکھ کر ان پر عمل در آمد کرے گی۔اس موقع پر سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ وہ کمشنر لاڑکانہ اور اے آئی جی سے ان مسائل کے حل کے سلسلے میں بات چیت کریں گے۔
وحدت نیوز (لاہور) کرپشن کیخلاف بھر پور کاروائی کے بغیر دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں،کرپشن کیخلاف پوری قوم کی نظریں سپریم کورٹ پر ہے،ملکی وسائل لوٹنے والے حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں بلاتفریق کاروائی ہونی چاہیئے،نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد نہ ہونا حکمرانوں کی ناکامی ہے،لاہور میں ڈاکو راج انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے،پنجاب حکومت نے لاہور کے شہریوں کو ڈاکوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ ملازم حسین نقوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں اجلاس سے خطاب میں کیا ۔
انہوں نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے میڈیا ہاوسسز کو ہراساں کرنے کا عمل قابل مذمت ہے،آزادی صحافت پر قد غن لگانے والوں کو کسی بھی طرح جمہوری حکمران نہیں کہا جاسکتا،ہم آزادی صحافت کے لئے سحافی برادری کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں،پاکستان اسلامی جمہوری مملکت ہے،یہاں شاہانہ طرز حکومت کو کوئی بھی باشعور فرد قبول نہیں کریگا،علامہ ملازم نقوی نے کہا کہ دہشت گردی کی عفریت سے نجات کا واحد ذریعہ کالعدم جماعتوں ان کے سہولت کاروں اور سیاسی سرپرستوں کو لگام دینا ہے،بدقسمتی سے حکمران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے مصلحت پسندی کے سبب ایسے اقدامات اُٹھانے سے قاصر ہے،انتہا پسند اب بھی آزاد ہیں اور اپنے مقاصد کے حصول میں کامیاب نظر آتے ہیں،انہوں نے عید میلادالنبیۖ کو شایان شان طریقے سے منانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ خاتم النبین رحمت لعالمین حضور سرور کائناتۖ کی ذات اقدس امت مسلمہ کی مشترکہ میراث ہے، آپۖکی سنت اور تعلیمات کی پیروی کر کے معاشرے میں امن محبت رواداری کو عام کیا جاسکتا ہے،اجلاس میں کارکنان کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات سید اسد عباس نقوی کوآرڈینیٹر پولیٹیکل کونسل آصف رضا ایڈووکیٹ کے ہمراہ اپنے تنظیمی دورے پر کوئٹہ پہنچ گئے ہیں ، جہاں وہ اہم پارٹی امور کا جائزہ لیں گے اور مقامی رہنمائوں سے ملاقات سمیت اہم معاملات پر تبادلہ خیال کریں گے، کوئٹہ آمد پر ڈویژنل سیکریٹری جنرل سید عباس موسوی نے دیگر اراکین کے ہمراہ معززرہنمائوں کا استقبال کیا اور انہیں خوش آمدید کہا۔