وحدت نیوز(اندرون سندھ) مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام یوم القدس کے موقعہ پر کرکراچی، حیدر آباد،نواب شاہ ،قاصی احمد ،بدین ،ماتلی ،سجاول ،ٹھٹھہ ،خیرپور،رانی پور ،سکھر ،شکارپور،خیرپورناتھن شاہ سمیت  صوبہ سندھ کے مختلف شہروں میں احتجاجی ریلیاں نکالیں گئیں۔جن کی قیادت ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی و صوبائی رہنماوں بشمول علا مہ  مختار امامی، مقصود علی ڈومکی ،علامہ نشان حیدر ،مولانا دوست علی سعیدی ،علامہ مبشر حسن ،علامہ علی انور،علامہ نقی حیدری ،یعقوب حسینی ،عالم کربلائی ،اکبر شاہ ،شفقت لانگا،مختار دایو،ایڈوکیٹ رحمان شاہ،میثم عابدی ،رضا نقو ی نے کی۔ریلیوں کے دوران شرکا ء نے بینرز اٹھارکھے تھے جن پر اسرائیل و امریکہ مخالف نعرے درج تھے۔قائدین نے اپنے خطابات میں صیہونی مظالم پر شدید رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے بیت المقدس کی آزادی کے لیے امت مسلمہ کی مشترکہ جدوجہد کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ قبلہ اول پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ امت مسلمہ کی قوت ایمانی پر کاری ضرب ہے۔عالم اسلام کو اپنے مقدسات کی حفاظت کو مقدم رکھنا چاہیے۔اس وقت عالم اسلام استعماری قوتوں کے نشانے پر ہے۔یہود و نصاری کے مفادات اور اہداف مشترک ہیں۔تاریخ کے اس نازک دور میں مسلمان حکمرانوں کو اعلی بصیرت اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔اسرائیل نے فلسطین کے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے لیکن مسلمان ممالک اسرائیل کے اس جارحانہ طرز عمل کے خلاف کسی غیرمعمولی ردعمل کا اظہار کرنے کی بجائے اس کے ساتھ کاروباری رابطے استوار کرنے میں مصروف ہیں جو نا صرف اخلاقی تنزلی ہے بلکہ حکم ربانی سے بھی صریحاََ انحراف ہے۔اسرائیل کی بجائے مسلمان ممالک کے خلاف عرب ممالک کا اتحاد ان کی ترحیجات اور اہداف کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔انہوں نے کہا کہ امام خمینی کے حکم کے مطابق یوم القدس مظلوموں کی حمایت کا عالمی دن ہے۔ دنیا کا ہر ذی شعور جو ظلم کو انسانی تقاضوں کی توہین سمجھتا ہے وہ اس دن کی حمایت میں آواز بلند کرتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ فلسطین کے مظلوم مسلمانوں اور بیت المقدس پر اسرائیلی جارحیت کے خلاف آج ملک بھر میں مجلس وحدت مسلمین کے زیر اہتمام مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) قانون کی نظر میں سب برابرہے ،یعنی ہم سب کو قانون پر عمل کرنا ہوگا، چاہے کوئی وزیر ہو مشیر ہو یا کوئی عام آدمی، کسی کو قانون شکنی کی اجازت نہیں دے سکتے بلکہ وفاقی اور صوبائی وزراء پر ذمہ داریاں دوسروں کی نسبت زیادہ عائد ہیں۔ وزراء اور اعلیٰ افسران قانون کا احترام کرے تاکہ عوام کو خود بخود قانون کی اہمیت کا احساس ہوجائے، قانون کا احترام ہر شہری اپنے منتخب کردہ نمائندے کو دیکھ کر سیکھ سکتا ہے۔ جب عوام کو اس بات کا احساس ہوگا کہ وزراء بھی قانون شکنی سے گریز کرتے ہیں تو عوام بھی ان باتوں کا خیال رکھیں گے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے ڈپٹی سیکرٹیر ی جنرل اور کونسلر کربلائی رجب علی نے عوام کو قانون کا احترام اور اسکی پاسداری کی تلقین کرتے ہوئے کیا  ۔

انہوں نے کہا کہ قانون کا احترام ہر خاص و عام پر فرض ہے،اسکی پاسداری ملک کے نظام کو بحال رکھ سکتی ہے اور ان بنائے گئے قوانین پر عملدرآمد سے ہی ہمیں بدنظمی اور دیگر مسائل سے چھٹکارا مل سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ قانون کی نظر میں سب برابرہے ،یعنی ہم سب کو قانون پر عمل کرنا ہوگا، چاہے کوئی وزیر ہو مشیر ہو یا کوئی عام آدمی، کسی کو قانون شکنی کی اجازت نہیں دے سکتے بلکہ وفاقی اور صوبائی وزراء پر ذمہ داریاں دوسروں کی نسبت زیادہ عائد ہیں۔ وزراء اور اعلیٰ افسران قانون کا احترام کرے تاکہ عوام کو خود بخود قانون کی اہمیت کا احساس ہوجائے، قانون کا احترام ہر شہری اپنے منتخب کردہ نمائندے کو دیکھ کر سیکھ سکتا ہے۔ جب عوام کو اس بات کا احساس ہوگا کہ وزراء بھی قانون شکنی سے گریز کرتے ہیں تو عوام بھی ان باتوں کا خیال رکھیں گے، ہمیں آئے روز سینکڑوں مسائل کا سامنا اس لئے کرنا پڑتا ہے کہ عوام پوری طرح قانون کا احترام نہیں کرتے اور یہ سب اسباب بنتے ہیں شہر کے نظم و ضبط کی پامالی کا، اسکی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عوام شہر کے بیشتر قوانین سے غافل ہے اور انہیں کوئی قانون سکھانے والا ہے ہی نہیں،کہ نظم و ضبط ہر معاشرے کی مہذب ہونے کی دلیل ہے اور اسی سے عوام کے شعور کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، ترقی یافتہ ممالک پر ایک نظر ڈالی جائے تو وہاں کا ہر فرد قانون سمجھتا اور اس پر عمل کرتا ہے اگر ہم اپنا شمار دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کرانا چاہتے ہیں تو نظم و ضبط کی بحالی پر خصوصی توجہ دینی ہوگی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ٹیکسی اور رکشوں کے کرایوں میں کمی کیلئے قانون بنایا گیا ہے اور ٹھیک اسی طرح اشیائے خورد و نوش کو بھی عوام کیلئے سستے دام تک پہنچانے کیلئے قانون بنایا گیا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ سب قوانین صرف کاغذ کے صفحوں تک ہی محدود ہوکر رہ گئی ہے ان چیزوں پر کوئی عمل نہیں کر رہا اور نہ ہی کوئی اقدام اٹھایا جا رہا ہے۔جو لوگ اپنی ذاتی گاڑیوں پر سفر کرتے ہیں ان کا ٹیکسی اور رکشوں کے کرایوں سے تعلق نہیں، دال چاول کے قیمتوں میں کمی یا اضافے سے شاید اعلیٰ افسران پر کوئی اثر نہ پڑے مگر غریب عوام کو ریلیف پہنچانے کی خاطر ان قوانین پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔

وحدت نیوز(سکردو) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی رہنما اور سیکریٹری تربیت علامہ اعجاز حسین بہشتی نے جامع مسجد کچورا میں خطبہ جمعہ دیتے ہوئے تہران حملے پر نہایت دکھ کا اظہار کرتے کیا اور کوئٹہ، کراچی میں ہونے والے ٹارگٹ کلنگ کی پرزور الفاظ میں مذمت کی،فضیلت ماہ مبارک رمضان پر گفتگو کرنے کے بعد علامہ اعجاز حسین بہشتی کاسیاسی پہلو پر نظر ڈالتے ہوئے کہنا تھاکہ، سعودی اتحاد اور دورہ ٹرمپ کے نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں. آل یہود و آل سعود نے عالم اسلام میں ایک نیا فتنہ کھڑا کر دیا ہے ان کا مقصد اپنے اپنے مفادات کے تحفظ اور مسلمانوں میں فرقہ واریت کو فروغ دینا ہے تاکہ مسلمان آپس میں دست و گریباں رہیں۔

ان کا مذید کہنا تھا کہ دورہ ٹرمپ میں سعودی اتحاد کا مقصد اور اس میں پاکستان کی حیثیت کا پول کھولنے کے بعد حکومت کو کسی طرح بھی اس یک طرفہ اور فرقہ ورانہ اتحاد میں بیٹھنے کا حق نہیں۔ اگر حکومت کو عوام  کی امنگوں کا خیال ہے تو فوری اس اتحاد سے الگ ہو جائیں اور مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے جنرل (ر) راحیل شریف کو واپس بلائیں۔سعودی عرب نے  امریکہ و اسرائیل کی پشت پناہی میں دنیا بھر میں خصوصا مشرق وسطی و پاکستان میں داعش، آئی ایس، طالبان اور تکفیری نظریہ کی مدد کر کے  جو مسلمانوں کی نسل کشی کی ہے وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ حال ہی میں پاک افواج کی طرف سے مستونگ میں داعش کے خلاف کامیاب آپریشن قابل تعریف ہے، تکفیری دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں عوام پاک فوج کے ساتھ ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ ملک بھر سے ان کے ٹھکانوں کو ختم کیا جائے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے کوئٹہ میں ہزارہ قبیلہ سے تعلق رکھنے والے دو شیعہ بہن بھائیوں اور کراچی میں شیعہ نوجوان محسن کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنانے پر گہرے غم و غصے کااظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کالعدم مذہبی جماعتیں ایک بار پھر سر اٹھا رہی ہے۔دہشت گردی کے حالیہ واقعات سیکورٹی اداروں کو انتہا پسند عناصر کی جانب سے کھلم کھلا چیلنج ہے۔انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کالعدم جماعتوں کے ساتھ لچک کا مظاہرہ ان مذموم عناصر کے حوصلے کو تقویت دے رہا ہے۔ہزارہ قبیلہ کی وطن عزیز کی آزادی میں نمایاں خدمات رہی ہیں لیکن اپنے ہی شہر میں انہیں محصور کر کے رکھ دیا گیا ہے۔مٹھی بھر دہشت گرد وں کا حکومتی گرفت سے بچ کر کاروائیوں میں مصروف ہونا حیران کن ہے۔مذہب کے نام پر قتل و غارت کرنے والوں نے اب خواتین کو نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے جو افسوسناک اور ناقابل برداشت ہے۔پاکستان میں اہلسنت کے بعد ملت تشیع دوسری بڑی اکثریت ہے۔ہمارے نوجوانوں کو گزشتہ تین دہائیوں سے چن چن کر قتل کیا جا رہا ہے۔حکمرانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ملت تشیع کو تحفظ فراہم کرے۔ عسکریت پسند مذہبی جماعتوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ان کے شر سے کوئی بھی جگہ محفوظ نہیں ۔عبادت گاہیں ، مزارات، سکول، امام بارگاہیں اور مساجد سمیت ہر اہم مقام پر دہشت گردوں نے کاروائیاں کر کے ملک کے امن و امان کو تباہ کیا ہے۔موجودہ حکمران اچھے اور بْرے طالبان کے نام پر دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کرتے آئے ہیں جن کا خمیازہ اب پوری قوم بھگت رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ شام سے فرار ہونے والے داعشی دہشت گردوں کو افغانستان میں پناہ دی گئی ہے تاکہ پاکستان میں کاروائیاں کرنے میں انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔اسلام دشمن عالمی قوتیں داعش کو پاکستان میں دھکیل کر اپنا اگلا ہدف واحد اسلامی طاقت پاکستان کو بنانا چاہتے ہیں۔پوری حکومتی مشینری موجودہ حکومت کی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں مصروف ہے۔ملک کی سالمیت و بقا سے انہیں کوئی غرض نہیں۔عالمی دہشت گرد تنظیم داعش سے فکری مطابقت رکھنے والے نام نہاد علما اور اداروں کے خلاف بھرپور کاروائی حالات کا اولین تقاضہ ہے۔اس میں غفلت کا مظاہرہ پاکستان دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل میں معاونت کے مترادف سمجھا جائے گا۔تکفیری فکر کے فروغ میں سرگرم ادارے دہشت گرد ساز نرسریاں ہیں۔وطن عزیز کی بقا و سالمیت ان اداروں کی بیخ کنی سے مشروط ہے۔اس وقت ملک نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔عوام میں عدم تحفظ کے بڑھتے ہوئے احساس کا خاتمہ حکومت کی سنجیدہ کوششوں کے بغیر ممکن نہیں۔ کالعدم مذہبی جماعتوں کے خلاف فوری کاروائی کی جائے ان جماعتوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے جو نام بدل کر اپنی مذموم سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔کالعدم جماعتوں سے کسی بھی قسم کا رابطہ نہ رکھنے پر حکومتی و سیاسی شخصیات کو پابند کیا جائے۔پنجاب اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں لشکر جھنگوی اور دیگر دہشت گروہوں کی کمین گاہوں کا تدارک کیا جائے اور نیشنل ایکشن پلان کے تمام نکات پر عمل کیا جائے۔انہوں نے ڈی جی رینجرز اور کور کمانڈر کوئٹہ سے مطالبہ کیا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے اندر دہشت گردوں کے گرد گھیرا تنگ کیا جائے ۔رمضان المبارک کے دوران عبادت گاہوں میں سیکورٹی کو بڑھایا جائے ۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) سرزمین حجاز ہمارے لئے انتھائی مقدس سرزمین ہے. اور یہ ہماری عقیدتوں کا مرکز بھی ہے لیکن اس مقدس سرزمین پر مسلط آل سعود کی حقیقت کیا ہے. کوئی بھی منصف مزاج شخص جب انکی تاریخ کا مطالعہ کرتا ہے تو اسے ماسوائے ظلم وبربریت ، قتل وغارت ، تباہی وبربادی کے علاوہ اسے کچھ نہیں ملتا. جزیرہ عرب کے لاکھوں انسانوں کے خون اور جلتے ہوئے گھروں اور خیموں کی آگ سے تعمیر ہونے والی  اس مملکت سے حرمين شريفين كي حفاظت اور امت مسلمة كي حقوق كي پاسداری ممکن هی نهین. جب بیت اللہ الحرام ، مسجد نبوی كي حرمت اورجنت البقیع ،جنت المعلی ، کربلا معلی كا وجود انکے شر سے محفوظ نہیں رہ سکے ، تو پھر ان سے کسی مقدس چیز کی حفاظت کی توقع کیا کی جا سکتی ہے.
ہم اپنے موضوع کی طرف آتے ہیں اور منصفانه جائزه ليتے هين اور انڈیا کے ساتھ انکے تعلقات کی تاریخ قديم اور حاضر سے پردہ اٹھاتے ہیں.
انڈیا سعودی تعلقات کا جائزہ تین مراحل کی شکل میں لیا جا سکتا ہے.
پہلا مرحلہ 1932 سے 1965 تک تقریباً 43 سال
دوسرا مرحلہ 1965 سے 2000 تک  تقریبا 35 سال
تیسرا مرحلہ 2000 سے 2017 تک  تقریبا  17 سال

پہلا مرحلہ 1932 سے 1965 تک :

* 1932 جب سعودی ملک عبدالعزیز بن عبدالرحمن بن فیصل آل سعود نے حجاز مقدس یا جزیرہ عرب پر قبضہ کیا اور اسکا مقدس نام تبدیل کرکے اپنے خاندانی نام سے منسوب کرتے ہوئے سعودی عرب رکھا. تو جواھر لعل نہرو نے انکے اس کارنامے کی بہت تعریف کی اور انکی شجاعت ( لاکھوں مسلمانوں کے قتل عام ) اور سیاسی بصیرت کو سراہا. یہیں سے آل سعود اور ھندو لیڈروں کے تعلقات کا سلسلہ شروع ہوا. اور نقطہ اتحاد یہ بھی تھا کہ آل سعود نے طاقت کے بل بوتے پر جزیرہ عرب کو متحد کیا اور کانگرس بھی ہندوستان سے جدا گانہ ملک پاکستان کا مطالبہ طاقت سے دبانا چاہتی تھی.
* مئی 1955 کو اس وقت کے سعودی ولی عہد ملک فیصل بن عبدالعزیز آل سعود نے انڈیا کا دورہ کیا. جو کہ ملک کے وزیراعظم اور وزیر خارجہ بھی تھے. اور انھوں نے مضبوط دو طرفہ تعلقات اور تعاون کے اصول طے کئے.
* ان کے نیو دھلی دورے کے چند دن بعد ہی خود سعودی فرمانروا ملک سعود بن عبدالعزیز نے 17 دن کا انڈیا کا دورہ کیا. اور اس دورے میں وہ انڈیا کے نیو دھلی کے علاوه بمبئ ، حیدرآباد ، میسور ، شملا ، آگرہ اور علی گڑھ وغیرہ مختلف شہروں میں گئے. اور دونوں ممالک کے تعلقات بہت مضبوط ہوئے.
*  1956  میں انڈین وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے سعودیہ کا دورہ کیا اور انکا والہانہ استقبال ہوا. اور اسے جدہ اسٹیڈیم میں ایک بڑے عوامی اجتماع سے خطاب کر نے کا شرف دیا گیا یہ پروٹوکول اور شرف  کسی بھی غیر ملکی مہمان کو نہیں دیا جاتا تھا.
* اس کے بعد امریکہ اور روس کے ما بین کولڈ وار کا دور تھا. اور دنیا دو بلاکوں کے اندر تقسیم ہوئی . انڈیا روس کے بلاک میں چلا گیا اور سعودیہ امریکی بلاک کا حصہ تھا اس لئے انکے تعلقات بھی کولڈ ہو گئے.

دوسرا مرحلہ 1965 سے 2000 تک:

امریکی بلاک میں ہونے کے ناطے سعودیہ کی پاکستان سے قربتیں بڑھیں.  بھٹو چونکہ روس کی طرف میلان رکھتا تھا اس لئے بھٹو اپوزیشن جماعتوں، بالخصوص دیوبندی اور نام نہاد خلافت اسلامیہ کے ایجنڈے پر کام کرنے والی جماعتوں سے قربتیں بڑھیں. جب فوجی انقلاب کے ذریعے جنرل ضیاء الحق برسر اقتدار آیا اور سعودیہ کی نظریاتی طور پر ہم فکر جماعتوں کو بھی سیاسی عروج ملا تو پاکستان کے مستقبل کے لئے موسم خزاں اور وھابیت وتکفیریت کی بہار کا دور شروع ہوا .
اور دوسري طرف پاکستان سے قربت اور خطے میں آنے والی تبدیلیوں کے باوجود انڈیا کے ساتھ سعودی تعلقات بدستور قائم  رہے.
* 1981 میں دونوں ملکوں کے ما بین اقتصادی اور ٹیکنالوجی تعاون کو بڑھانے کے لئے مشترکہ فورم بنا.
* 1982 کو انڈین وزیراعظم اندراگاندھی نے سعودیہ کا رسمی دورہ کیا
اور مندرجہ ذیل شعبوں میں انکے ما بین تعاون جاری رھا.
1- پاور اور ٹیکنالوجی کے میدان میں تعاون جاری رھا.
2- بڑی تعداد میں انڈین لیبرز کو سعودیہ میں کام کرنے کے مواقع ملے.اس وقت اگر دو ملین کے قریب پاکستانی سعودیہ میں مزدوری کر رہے ہیں . تو انڈین مزدوروں کی تعداد تقریبا تین ملین ہے. لیکن آل سعودی انکے ساتھ پاکستانیوں سے اچھا سلوک بھی کرتے ہیں اور انڈین حکومت کو دھمکیاں بھی نہیں دیتے کہ ہم آپکے مزدور نکال دیں گے اور نہ ہی سعودی حکومت یہ احسان جتلاتی رہتی ہے اور نہ ہی انکے نمک خوار انڈیا میں ایسے ہیں جو یہ احسان جتلاتے رہیں.
3- 1990 میں کولڈ وار کے خاتمے کے بعد اور دوسری خلیجی جنگ جب عراق نے کویت پر حملہ کیا. اس کے بعد سعودی اور خلیجی ممالک میں خطرات کا احساس بڑھا. اس لئے انہوں نے اپنی دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے انڈیا سے تعلقات بڑھائے.  اور چند سالوں میں انڈیا سب سے زیادہ سعودیہ سے خام تیل کا خریدار بنا.

تیسرا مرحلہ  2000 سے 2017 تک

سعودی انڈین تعلقات کا عروج:  

یہ دور سعودی انڈین تعلقات کی بہار کا دور ہے. ان دونوں ممالک کے مابین اس وقت بہت قربتیں ہیں لیکن اس مرحلے پر روشنی ڈالنا اور پاکستانی عوام کو انڈین سعودی گٹھ جوڑ سے آگاہ رکھنا نہ ہماری حکومت کی اولویات میں شامل ہے اور نہ ہی ہمارا میڈیا اس پر شور مچاتا ہے. ہمیں انڈین ایرانی تعلقات تو نظر آتے ہیں لیکن انڈین سعودی تعلقات نظر نہیں آتے.
ہم یہاں ان پر روشنی ڈالتے ہیں.
انڈیا اور سعودیہ کے مابین سیاسی ،اقتصادی ،امنی اور دفاعی معاہدے ہیں.
انڈیا اپنی ضرورت کا 30% پٹرول سعودیہ سے خریدتا ہے جوکہ پانچ لاکھ بیرل روزانہ بنتا ہے. سعودی رپورٹس کے مطابق انڈیا انکا چین ، امریکا اور امارات کے بعد دنیا میں چوتھا بڑا بزنس پارٹنر ہے. وہ روزانہ پانچ لاکھ بیرل پٹرول سعودی عرب سے امپورٹ کرتا ہے. 2000 سے 2006 تک 68 انڈیا کی کمپنیاں سعودیہ میں کام کرتی تھیں. 2006 سے 2009 تک انکی تعداد 250 تک پہنچ گئی.  اور ابھی انکی تعداد 400 سے تجاوز کر چکی ہے. پاکستان کے ساتھ سعودی تجارت فقط 4.5 بلین ڈالرز سالانہ ہے - 2016 تک انڈیا اور سعودیہ کے مابین تجارت 150 بلین ڈالرز سالانہ ہے. بڑی تعداد میں انڈین لیبرز کو سعودیہ میں کام کرنے کے مواقع ملے.اس وقت اگر دو ملین کے قریب پاکستانی سعودیہ میں مزدوری کر رہے ہیں . تو انڈین مزدوروں کی تعداد تقریبا تین ملین ہے. لیکن آل سعودی انکے ساتھ پاکستانیوں سے اچھا سلوک بھی کرتے ہیں اور انڈین حکومت کو دھمکیاں بھی نہیں دیتے کہ ہم آپکے مزدور نکال دیں گے اور نہ ہی سعودی حکومت یہ احسان جتلاتی رہتی ہے اور نہ ہی انکے نمک خوار انڈیا میں ایسے ہیں جو یہ احسان جتلاتے رہیں.

سعودي سركاری وفود کے انڈیا کے دورے :

- 2005 کو سعودی وزارت پٹرولیم اور انڈین وزارت پٹرولیم کے ما بین مشترکہ تعاون کی کمیٹی تشکیل پائی.
- 2006 سعودی فرمانروا ملک عبداللہ بن عبدالعزیز کا دورہ. از سر نو سعودی عرب اور ھندوستان کے تعلقات اس دورے سے بہت مضبوط ہوئے اور یہ دورہ بھارت کے یوم آزادی کی مناسبت کے ایام میں ہوا اور ملک عبداللہ نے اپنے خطاب میں انڈیا کو اپنا دوسرا وطن قرار دیا.
اس کے بعد دو طرفہ تعلقات اور وفود کے تبادلے کا وہ دور شروع ہوا جو تاریخ نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا. حتی کہ سعودی وزیر خارجہ جبیر نے تو یہاں تک کہ دیا کہ ہم پاکستان کی خاطر ہرگز انڈیا کو نہیں چھوڑ سکتے. سعودی نمک خوار اور محب وطن ہونے کے دعویدار اسکا ذکر کبھی نہیں کریں گے.

سعودی وفود کے سرکاری انڈیا کے دورہ جات:

- سعودی وزیرخارجہ سعود الفیصل نے 2006 میں انڈیا کا دورہ کیا.
- فروری 2008 اور دسمبر 2008 میں سعود الفیصل نے انڈیا کے دو دورے کئے
-2006 اور 2008 کے درمیان دیگر مختلف سعودی وزراء جن میں وزیر عدل ، وزیر صنعت وتجارت ، وزیر پٹرولیم ومعدنیات ،وزیر صحت اور وزیر تعلیم نے بھی کئی ایک دورے کئے. اور اپنی اپنی وزارتوں کے متعلق امور پر دو طرفہ تعاون کے معاہدوں پر انکے اور انڈین وزراء کے مابین دستخط ہوئے.
- 15 ،16 جنوری 2009 کو سعودی انٹیلی جینس کے سربراہ امیر مقرن بن عبدالعزیز نے بھی انڈیا کا دورہ کیا.
- اپریل 2010 میں ملک سلمان بن عبدالعزیز نے اعلی سطحی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے انڈیا کا دورہ کیا.
- اگست 2009 اور نومبر 2010 کو سعودی وزیر صنعت وتجارت نے انڈیا کا دورہ کیا.
- 28 مارچ 2011 کو سعودی فرمانروا کے خصوصی نمائندے کے طور پر امیر بندر بن سلطان نے انڈیا کا دورہ کیا اور انڈین وزیراعظم منموہن سنگھ سے خصوصی ملاقات کی.
- فروری 3-5  2011 کو سعودی وزیر اقتصاد و منصوبه بندي نے انڈیا کا دورہ کیا اور اقتصادی تعاون کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی.
- فروری 2012 کو امیر عبدالعزیز بن سلمان بن عبدالعزیز وزیر پٹرولیم ومعدنیات نے انڈیا کا دورہ کیا.
- مارچ 2012 پہلی بار امام مسجد الحرام شیخ عبدالرحمن سدیس نے انڈیا کا پانچ روزہ دورہ کیا.
4-6 جنوری 2012 کو سعودی وزیر صنعت وتجارت نے - 76 رکنی وفد کے ساتھ انڈیا کا دورہ کیا اور دونوں ممالک کی مشترکہ صنعتی وتجارتی کونسل کے نویں اجلاس میں شرکت کی.
-30 اپریل 2012 کو امام مسجد الحرام شیخ خالد غامدی نے انڈیا کا دورہ کیا.
- سعودی مجلس شوریٰ کے سربراہ شیخ عبداللہ بن محمد آل شیخ نے انڈیا کا دورہ کیا اور انڈیا سیاستدانوں اور پارلیمنٹرین سے ملاقات کی.
- 2015 کو سعودی وزیرخارجہ عادل جبیر نے انڈیا کا دورہ کیا اور بیان دیا کہ ہم پاکستان کی خاطر انڈیا کو نہیں چھوڑ سکتے.
- 2015 میں انڈیا کی فضائیہ کی مشقوں کو دیکھنے سعودی وزیر دفاع آئے.

انڈین سرکاری وفود کے سعودیہ کے دورہ جات.:

- اپریل 2008 کو انڈین وزیر خارجہ پرناب مکھرجی نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- اپریل 2009 کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ ای. احمد نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- 31 اکتوبر 2009 کو انڈیا کے وزیر مالیات پرناب مکھرجی نے دس رکنی وفد کی سربراہی کرتے ہوئے سعودیہ کا دورہ کیا. اور مشترکہ مالیاتی امور کی کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی.
- 27 فروری 2010 کو انڈیا کے وزیر اعظم منموہن سنگھ نے سعودی عرب کا کامیاب دورہ کیا.
- 22 فروری 2011 کو انڈیا کے وزیر گیس وپٹرولیم نے سعودیہ کا دورہ کیا مشترکہ تعاون کی کونسل کے اجلاس میں شرکت کی.
- 26 مارچ 2011 کو انڈین وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا نے سعودیہ کا دورہ کیا.
- 4 اپریل 2016 کو نریندرمودی انڈیا کے وزیر اعظم نے سعودیہ کا دورہ کیا اور اس کا بے نظیر استقبال ہوا. پاور ، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور صنعت وتجارت کے میدان میں معاہدے اور 400 انڈین کمپنیوں کو سعودیہ کی طرف سے پرمٹ دینے پر اتفاق ہوا.

انڈیا اور سعودیہ کے مابین امنی اور دفاعی تعلقات:
 
- 2009 میں دونوں ملکوں کے ما بین امنیتی اور دفاعی معاہدے ہوئے.  جن کی بنیاد پر جماعۃ الدعوۃ اور لشکر طیبہ پر سختیاں شروع ہوئیں.  سعودیہ نے بمبئی حملوں میں مطلوب لشکر طیبہ کے افراد کو اپنے ملک سے بھی نکال دیا اور بعض کو انڈیا کے حوالے کیا.
- فروری 2014 کو دو هندوستاني جنگی بحری بیڑے سعودیہ کے ساتھ مشترکہ جنگی مشقوں میں شریک ہوئے.
- مارچ 2015 کو دونوں ممالک کے درمیان دفاعی معاہدے پر دستخط ہوئے. انڈین نیشنل دیفنس کالج اور سعودی اعلی دفاعی کالج کے مابین دونوں ممالک کے  وفود کے تبادلے ہوئے.
- 2015 کو انڈین جنگی بحری بیڑے جدہ آئے. اورانڈیا فضائيه کے جنگی جہاز اور اسلحہ منتقل کرنے والے جہاز بھی سعودیہ لینڈ ہوئے. ان پر ایک بڑی تعداد میں انڈیا کے فوجی بھی سعودیہ پہنچے.اور اسي سال سعودی فوجی آفیسرز انڈیا کے نیشنل ڈیفنس کالج ٹریننگ کے لئے آئے.
- انڈین بحریہ کے دو جنگی بیڑے ای این ایس دھلی اور ای این ایس ٹریشل 10 ستمبر 2015 کو سعودی بندرگاہ الجبیل پر لنگر انداز ہوئے. انڈیا کا ای این  ایس ٹریشل جنگی بحری بیڑا 163 میٹر لمبا ہے اور جدید ترین جنگی ہتھیاروں سے لیس ہے. زمین سے زمین پر متوسط مدی کے میزائل اور اینٹی ایئر کرافٹ نصب ہیں.


تحقیق وتحریر:  ڈاکٹر سید شفقت حسین شیرازی
مصادر ومنابع :  سعودی وخلیجی سائٹس اور جرائد کی رپورٹس

وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ آج کی استحکام پاکستان و امام مہدیؑ کانفرنس ظالموں سے نفرت، مظلوموں کی حمایت، دجالی طاقتوں سے مقابلے اور استقامت کیلئے سنگ میل ثابت ہوگی، گلگت بلتستان حکومت علامہ شیخ نئیر مصطفوی اور علامہ شیخ علی کو فوری طور پر رہا کرے۔ ایم ڈبلیو ایم سندھ کے زیر اہتمام نشترپارک کراچی میں استحکام پاکستان و امام مہدیؑ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ ہم پاکستان سمیت دنیا بھر کے دجالیوں سفیانیوں کا بھرپور مقابلہ کریں اور منہ توڈ جواب دینگے، دجالیوں نے یمن سے سبق حاصل نہیں کیا، لبنان کی شکست سے کچھ نہیں سیکھا، عراق اور شام سے سبق حاصل نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے حکمران تجارت کر رہے ہیں اور ڈالر و ریال کے عوض ملک و قوم کا سودا کر رہے ہیں، ڈالر و ریال پر پلنے والے کرپٹ حکمرانوں یاد رکھیں کہ ملک و قوم کی عزت کو محب وطن اہل تشیع بچائیں گے، ملک و قوم کو کرپٹ حکمرانوں کی سازشوں کا شکار نہیں ہونے دینگے۔ انہوں نے مزید کہا کہ 70 سال سے محب وطن ملت تشیع کے مسائل حل نہیں ہو رہے ہیں، ہمارے آباؤ اجداد نے پاکستان بنانے کی تحریک میں صف اول کا کردار ادا کیا، تحریک قیام پاکستان کی عملی حمایت کا فیصلہ کیا تھا۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree